Blog
Books
Search Hadith

نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے نسب کی فضیلت اور پاکیزگی کے بیان میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا خطبہ

۔ (۱۱۰۸۱)۔ قَالَ الْعَبَّاسُ: بَلَغَہُ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَعْضُ مَا یَقُولُ النَّاسُ، قَالَ: فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ، فَقَالَ: ((مَنْ أَنَا؟)) قَالُوْا: أَنْتَ رَسُولُ اللّٰہِ، فَقَالَ: ((أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، إِنَّ اللّٰہَ خَلَقَ الْخَلْقَ فَجَعَلَنِی فِی خَیْرِ خَلْقِہِ، وَجَعَلَہُمْ فِرْقَتَیْنِ فَجَعَلَنِی فِی خَیْرِ فِرْقَۃٍ، وَخَلَقَ الْقَبَائِلَ فَجَعَلَنِی فِی خَیْرِ قَبِیلَۃٍ، وَجَعَلَہُمْ بُیُوتًا فَجَعَلَنِی فِی خَیْرِہِمْ بَیْتًا، فَأَنَا خَیْرُکُمْ بَیْتًا وَخَیْرُکُمْ نَفْسًا۔)) (مسند احمد: ۱۷۸۸)

سیدنا عباس بن عبدالمطلب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ بات پہنچی کہ کچھ لوگوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے نسب کے متعلق نازیبا اور ناروا باتیں کی ہیں۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم منبر پر تشریف لائے اور فرمایا: لوگو بتلاؤ! میں کون ہوں؟ صحابہ نے عرض کیا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب ہوں، اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا تو اس نے انسانوں کے بہترین گروہ میں بنایا، اس نے قبائل بنائے تو مجھے بہترین قبیلہ میں بنایا، اس نے ان کے گھرانے بنائے تو اس نے مجھے بہترین گھرانے میں بنایا۔ میں گھرانے اور اپنی ذات کے لحاظ سے( یعنی ہر لحاظ سے) تم سب سے افضل ہوں۔
Haidth Number: 11081
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۱۰۸۱) تخریج: حسن لغیرہ أخرجہ الترمذی: ۳۶۰۷ (انظر: ۱۷۸۸)

Wazahat

فوائد:… نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا نسب اس طرح ہے۔ محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بن عبد اللہ بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قُصَی بن کِلاب بن مُرّہ بن کعب بن لُؤیّ بن غالب بن فِہر بن مالک بن نضر بن کِنانہ بن خزیمہ بن مُدرِکہ بن الیاس بن مضر بن نِزار بن معَد بن عدنان۔ عدنان بالاتفاق اسماعل علیہ السلام کی نسل سے ہیں، لیکن اِن دونوں کے درمیان کتنی پشتیں ہیں اور ان کے نام کیا کیا ہیں، اس بارے بڑا اختلاف ہے۔ آپ قبیلۂ قریش سے تعلق رکھتے تھے، جو پورے عرب میں سب سے معزز قبیلہ تھا، قریش دراصل فہر بن مالک یا نضر بن کنانہ کا لقب تھا، بعد میں اس کی اولاد اسی نسبت سے مشہور ہوئی۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے کہا: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عرب بلحاظ جنس عجمیوں سے افضل ہیں، پھر عربوں میں قریشی، قریشیوں میں بنی ہاشم اور بنو ہاشم میں سب سے زیادہ فضیلت محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہیں، بلکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پوری انسانیت میں سب سے زیادہ فضیلت پانے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہر اعتبار سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو برتری اور فضیلت عطا کی، اس حدیث میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے نسب کی فضیلت کا بیان ہے۔ سیدنا عبد المطلب بن ربیعہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے ، وہ کہتے ہیں: أَتَی نَاسٌ مِنَ الْأَنْصَارِ اِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالُوْا: إِنَّا لَنَسْمَعُ مِنْ قَوْمِکَ حَتّٰییَقُوْلَ الْقَائِلُ مِنْھُمْ: إِنَّمَا مِثْلُ مُحَمَّدٍ مِثْلُ نَخْلَۃٍ نَبَتَتْ فِیْ کِبَائٍ، قَالَ حُسَیْنٌ: اَلْکِبَائُ اَلْکُنَاسَۃُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((یَا أَیُّھَا النَّاسُ مَنْ أَنَا؟)) قَالُوْا: أَنْتَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قَالَ: ((أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ۔)) قَالَ: فَمَا سَمِعْنَا ہُ قَطُّ یَنْتَمِیْ قَبْلَھَا ((أَلَا اِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ خَلَقَ خَلْقَہُ فَجَعَلَنِیْ مِنْ خَیْرِ خَلْقِہِ، ثُمَّّ فَرَّقَھُمْ فِرْقَتَیْنِ فَجَعَلَنِیْ مِنْ خَیْرِ الْفِرْقَتَیْنِ ثُمَّّ جَعَلَھُمْ قَبَائِلَ فَجَعَلَنِیْ مِنْ خَیْرِھِمْ قَبِیْلَۃً ثُمَّّ جَعَلَھُمْ بُیُوْتًا فَجَعَلَنِیْ مِنْ خَیْرِھِمْ بَیْتًا وَأَنَا خَیْرُکُمْ بَیْتًا وَخَیْرُکُمْ نَفْسًا))۔ … کچھ انصاری لوگ، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے اور انھوں نے کہا: ہم آپ کی قوم کی باتیں سنتے ہیں، وہ تو آپ کے بارے میں یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ محمد( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کی مثال کھجور کے درخت کی سی ہے، جو کوڑے کرکٹ میں پیدا ہوتی ہے، حسین راوی نے کہا: کِبَائ سے مراد کوڑا کرکٹ ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لوگو! میں کون ہوں؟ انھوں نے کہا: آپ اللہ کے رسول ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب ہوں۔ اس سے پہلے ہم نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اپنا نسب بیان کرتے ہوئے نہیں سنا تھا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: خبردار! اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق (جن و انس) کو پیدا کیا اور مجھے بہترین مخلوق (یعنی انسانوں) میں سے بنایا، پھر انسانیت کو دو حصوں میں تقسیم کیا اور مجھے بہترین حصے میں رکھا، پھر اس کو قبیلوں میں تقسیم کیا اور مجھے بہترین قبیلے میں رکھا، پھر اس کو گھروں میں تقسیم کیا اور مجھے بہترین گھر والا قرار دیا، پس میں تم میں گھر کے اعتبار سے بھی بہتر ہوں اور نفس کے لحاظ سے بھی بہتر ہوں۔ (مسند احمد: ۱۷۵۱۷) جب لوگوں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے حسب و نسب پر طعن کرتے ہوئے کہا کہ محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کی مثال کھجور کے درخت کی سی ہے…۔ تو جواباً آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فخریہ انداز میں اپنا نسب بیان کیا کہ بنی آدم میں سب سے زیادہ شرف و عظمت والا نسب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے نصیبے میں آیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جن احادیث میں آباء و اجداد کی وجہ سے فخر کرنے سے منع فرمایا، اس سے مراد وہ انداز ہے، جو ضرورت کے بغیر ہو اور جس کا نتیجہ تکبر اور دوسرے مسلمان کی تحقیر ہو۔