Blog
Books
Search Hadith

اس امر کا بیان کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اللہ کی طرف سے دنیوی مال و دولت عطا کرنے کی پیش کش کی گئی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے بے رغبتی کا اظہار کیا اور معمولی مال پر قناعت فرمائی

۔ (۱۱۲۱۵)۔ عَنْ اَبِی اُمَامَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((عَرَضَ عَلَیَّ رَبِّی عَزَّوَجَلَّ لِیَجْعَلَ لِی بَطْحَائَ مَکَّۃَ ذَھَبًا، فَقُلْتُ: لا یَارَبِّ، اَشْبَعُ یَوْمًا وَاَجُوْعُ یَوْمًا اَوْ نَحْوَ ذٰلِکَ، فَاِذَا جُعْتُ تَضَرَّعْتُ اِلَیْکَ وَذَکَرْتُکَ، وَاِذَا شَبِعْتُ حَمِدْتُکَ وَشَکَرْتُکَ۔)) (مسند احمد: ۲۲۵۴۳)

سیدنا ابو امامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے ربّ نے مجھ پر یہ چیز پیش کی کہ وہ مکہ مکرمہ کی وادیٔ بطحاء کو میرے لیے سونا بنا دے، لیکن میں نے کہا: نہیں، اے میرے ربّ! میں ایک دن سیر ہوں گا اور ایک دن بھوکا رہوں گا، جب میں بھوکا ہوں گا تو تیرے سامنے لاچاری و بے بسی کا اظہار کروں گا اور تجھے یاد کروں گا، اور جب سیر ہوں گا تو سیدنا ابو امامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے ربّ نے مجھ پر یہ چیز پیش کی کہ وہ مکہ مکرمہ کی وادیٔ بطحاء کو میرے لیے سونا بنا دے، لیکن میں نے کہا: نہیں، اے میرے ربّ! میں ایک دن سیر ہوں گا اور ایک دن بھوکا رہوں گا، جب میں بھوکا ہوں گا تو تیرے سامنے لاچاری و بے بسی کا اظہار کروں گا اور تجھے یاد کروں گا، اور جب سیر ہوں گا تو
Haidth Number: 11215
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Doubtful

ضعیف

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۱۲۱۵) تخریج: اسنادہ ضعیف جدا، عبیداللہ بن زحر الافریقی ضعیف، وعلی بن یزید بن ابی ھلال الالھانی واھی الحدیث، أخرجہ الترمذی باثر الحدیث: ۲۳۴۷ (انظر: ۲۲۱۹۰)

Wazahat

فوائد:… سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ھَجَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نِسَائَ ہُ شَہْرًا فاَتَاہُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَابِ وَھُوَ فِی غُرْفَۃٍ عَلَی حَصِیْرٍ قَدْ اَثَّرَ الْحَصِیْرُ بِظَھْرِہِ فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! کِسْرٰییَشْرَبُوْنَ فِی الذِّھَبِ وَالْفِضَّۃِ وَاَنْتَ ھٰکَذَا فَقَالَ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنَّھُمْ عُجِّلَتْ لَھُمْ طَیِّبَاتُھُمْ فِی حَیَاتِھِمِ الدُّنْیَا))… رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی بیویوں کو ایک ماہ کے لیے چھوڑ دیا تھا، پس سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بالاخانے میں ایک ایسی چٹائی پر تشریف رکھے ہوئے تھے، جس نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی کمر پر اپنا اثر چھوڑا ہوا تھا، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! کسری کی طرح کے لوگ تو سونے اور چاندی کے برتنوں میں پیتے ہیں اور آپ اس طرح ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ان کی نیکیاں ان کو دنیا میں ہی جلدی دے دی گئیں ہیں۔ (مسند احمد: ۷۹۵۰، مسند بزار: ۳۶۷۶) گویا نعمتوں کی کثرت میں اس قسم کے خطرے کا امکان ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی صورت میں دنیا میں ہی نیکیوں کا عوض دیا جا رہا ہے، درج مثال پر غور کریں: سیدنا عبد الرحمن بن عوف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس (افطاری کے لیے) کھانا لایا گیا، جبکہ وہ روزے دار تھے، پس انھوں نے کہا: قُتِلَ مُصْعَبُ بْنُ عُمَیْرٍ وَہُوَ خَیْرٌ مِنِّی کُفِّنَ فِی بُرْدَۃٍ إِنْ غُطِّیَ رَأْسُہُ بَدَتْ رِجْلَاہُ وَإِنْ غُطِّیَ رِجْلَاہُ بَدَا رَأْسُہُ وَأُرَاہُ قَالَ وَقُتِلَ حَمْزَۃُ وَہُوَ خَیْرٌ مِنِّی ثُمَّ بُسِطَ لَنَا مِنَ الدُّنْیَا مَا بُسِطَ أَوْ قَالَ أُعْطِینَا مِنَ الدُّنْیَا مَا أُعْطِینَا وَقَدْ خَشِینَا أَنْ تَکُونَ حَسَنَاتُنَا عُجِّلَتْ لَنَا ثُمَّ جَعَلَ یَبْکِی حَتّٰی تَرَکَ الطَّعَامَ۔ …سیدنا مصعب بن عمیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ شہید ہوگئے اور وہ مجھ سے بہتر تھے، ایک چادر میں انہیں کفن دیا گیا، اگر ان کا سر ڈھانپا جاتا تو پاؤں کھل جاتے اور اگر پاؤں چھپائے جاتے تو سر کھل جاتا اور میرا خیال ہے کہ یہ بھی کہا کہ سیدنا حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ شہید ہوئے اور وہ ہم سے بہتر تھے، پھر ہم پر دنیا وسیع کردی گئی اور ہمیں خوف ہوا کہ ہماری نیکیاں جلد دے دی گئیں پھر رونے لگے یہاں تک کہ کھانا چھوڑ دیا۔ (صحیح بخاری: ۱۱۹۶)