Blog
Books
Search Hadith

مشرکوں کو قبولیت ِ اسلام کی رغبت دلانا اور ان پر رحم کرتے ہوئے ان کی تالیف قلبی کرنا

۔ (۱۱۳)۔عَنْ نَصْرِ بْنِ عَاصِمٍ عَنْ رَجُلٍ مِنْہُمْ أَنَّہُ أَتَی النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَسْلَمَ عَلٰی أَنَّہُ لَا یُصَلِّی إِلَّا صَلَاتَیْنِ فَقَبِلَ مِنْہُ ذَالِکَ۔ (مسند أحمد: ۲۳۴۶۸)

نصر بن علی اپنی قوم کے ایک آدمی سے بیان کرتے ہیں کہ وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے پاس آیا اور اس شرط پر مسلمان ہوا کہ وہ صرف دو نمازیں ادا کرے گا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے اس کی یہ شرط قبول کر لی۔
Haidth Number: 113
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۱۳) تخریج: رجالہ ثقات (انظر: ۲۳۰۷۹)

Wazahat

فوائد: …نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کی تبلیغ میں حکمت ودانائی، دور رسی،عاقبت اندیشی، مزاج شناسی، لوگوں کا بھلا، یہ تمام صفات بدرجۂ اتم نظر آتی ہے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے دیکھا کہ ایک مشرف باسلام ہونا چاہتا ہے، لیکن پانچ نمازوں کے مسئلے پر اڑ گیا ہے، تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کی دانائی نے یہ فیصلہ کیا کہ فی الحال اس کی ضد کو مان لینا چاہیے، بعد میں جب اسلام کی حقیقت کا ادراک کر لے گا تو تمام ارکانِ اسلام کا قائل ہو جائے گا، اسی قسم کی دو مثالیں اور ان کی وضاحت درج ذیل ہیں: سیّدنا فضالہ لیثی ؓ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌نے مجھے کچھ امور کی تعلیم دی، ان میں سے ایک امر یہ بھی تھا: ((حَافِظْ عَلٰی الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ۔)) فَقُلْتُ: إِنَّ ھٰذِہِ سَاعَاتٌ لِی فِیْھَا أَشْغَالٌ، فَمُرْنِی بِأَمْرٍ جَامِعٍ إِذَا أَنَا فَعَلْتُہٗ أَجْزَأَعَنِّی، قَالَ: ((حَافِظْ عَلٰی الْعَصْرَیْنِ: صَلَاۃٍ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَصَلَاۃٍ قَبْلَ غُرُوْبِھَا)) … پانچوں نمازوں کی محافظت کیا کر۔ میں نے کہا: ان گھڑیوں میں تو میں مصروف رہتا ہوں، آپ مجھے کوئی ایسا جامع و قسم کا حکم دیں کہ میں اس پر عمل کرتا رہوں اور وہ مجھے کفایت کرتا رہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: دو نمازوں یعنی طلوع آفتا ب سے پہلے والی اور غروبِ آفتاب سے پہلے والی نمازوں کی محافظت کرتا رہ۔ (ابوداود: ۴۵۳، صحیحہ: ۱۸۱۳) کسی آدمی کے دماغ میں یہ نکتہ سرایت نہ کر جائے کہ دو نمازوں پر اکتفا کرنا بھی درست ہے، علمائے حق کے نزدیک اس حدیث کے دو معانی مراد لینا ممکن ہیں: (۱) اس آدمی کو اس کی مصروفیت کی وجہ سے جماعت سے پیچھے رہنے کی رخصت دی گئی تھی، نہ کہ ترکِ نماز کی اور (۲)وہ کوئی نو مسلم آدمی تھا اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کی حکمت نے اس بات کا تقاضا کیا کہ فی الحال اس کو رخصت دی جائے، جب ایمان میں رسوخ پیدا ہو جائے گا تو اس کے لیے پانچ نمازوں کی ادائیگی ممکن ہو جائے گی اور یہی بات اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے کہ جب کوئی مبلّغ کسی بے نمازی کو پانچ نمازوں کی ادائیگی کی تلقین کرتا ہے، لیکن وہ اس بات پر مصرّ ہے کہ وہ صرف دو تین نمازیں پڑھے گا تو اس حدیث کی روشنی میں اسے کہا جا سکتا ہے کہ چلو تم دو تین ہی پڑھتے رہو۔ (واللہ اعلم بالصواب) درج ذیل روایت کو دیکھا جائے تو دوسرا معنی راجح اور درست معلوم ہوتا ہے: ابوزبیر بیان کرتے ہیں، انھوں نے کہا کہ میں نے سیدنا جابر ؓ سے ثقیف قبیلہ کی بیعت کے بارے میں پوچھا۔ انھوں نے کہا کہ اس قبیلے نے (بیعت کرتے وقت) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ پر یہ شرط عائد کی تھی کہ ان پر صدقہ ہو گا نہ جہاد۔ تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌نے فرمایا: ((سَیَتَصَدَّقُوْنَ وَیُجَاہِدُوْنَ اِذَا اَسْلَمُوْا۔)) … عنقریب جب یہ لوگ (پکے) مسلمان ہو جائیں گے تو صدقہ بھی دیں گیااور جہاد بھی کریں گے۔ (مسند احمد: ۳/ ۳۴۱ ، صحیحہ: ۱۸۸۸) یہ حدیث اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ کسی بڑی مصلحت کی خاطر کسی کو عارضی طور پر اسلام کے بعض احکام سے مستثنی قرار دیا جا سکتا ہے۔ اگر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ ثقیف قبیلہ والے لوگوں کی شرطیں تسلیم نہ کرتے تو ممکن تھا کہ وہ کفر پر اڑے رہتے، جو کہ بہت بڑی مفسدت تھی، اس مفسدت سے تو وہ ناقص اسلام ہی بہتر ہے، جس میں جہاد اور صدقہ نہ ہوں، جبکہ رخصت دینے والے کو یہ امید بھی ہو کہ عنقریب یہ لوگ تمام اسلامی احکام کو تسلیم کر لیں گے۔ یہی معاملہ اس باب کی حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ پانچوں نمازیں نہ پڑھنے سے بہرحال دو ادا کر لینا بہتر ہے، ان دو کے ذریعے آہستہ آہستہ پانچ کا قائل کرنا ممکن ہو جائے گا۔ قربان جائیے حکیم و دانا پیغمبر کی حکمت و دانائی پر۔