Blog
Books
Search Hadith

اس امر کا بیان کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی برکت سے سرکش اور باغی جانور اور جمادات بھی فرماں بردار بن جاتے تھے

۔ (۱۱۲۹۱)۔ عَنْ عَبْدِالْوَاحِدِ بْنِ أَیْمَنَ عَنْ اَبِیْہِ عَنْ جَابِرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: مَکَثَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَصْحَابُہُ، وَہُمْ یَحْفِرُوْنَ الْخَنْدَقَ، ثَلَاثاً لَمْ یَذُوْقُوْا طَعَاماً، فَقَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! إِنَّ ھَاھُنَا کُدْیَۃً مِنَ الْجَبَلِ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((رُشُّوْھَا بِالْمَائِ فَرَشُّوْھَا۔)) ثُمَّ جَائَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَخَذَ الْمِعْوَلَ أَوِ الْمِسْحَاۃَ ثُمَّ قَالَ: ((بِسْمِ اللّٰہِ!)) فَضَرَبَ ثَلَاثاً فَصَارَتْ کَثِیْباًیُّہَالُ، قَالَ جَابِرٌ: فَحَانَتْ مِنِّی الْتِفَاتَۃٌ فَإِذَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَدْ شَدَّ عَلٰی بَطْنِہِ حَجَراً۔ (مسند احمد: ۱۴۲۶۰)

سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور صحابہ کرام بغیر کچھ کھائے تین روز تک خندق کھودتے رہے، کھدائی کے دوران صحابہ نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول! یہاں ایک پہاڑی چٹان ہے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس پر پانی چھڑک دو۔ صحابہ کرام نے اس پر پانی چھڑک دیا۔ پھر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے آکر گینتی اٹھائی اور فرمایا: بسم اللہ۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تین بار گینتی چلائی تو وہ چٹان ریزہ ریزہ ہو گئی۔ سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: اچانک میری نظر پڑی تو میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے بطن مبارک پر پتھر باندھا ہوا تھا۔
Haidth Number: 11291
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۱۲۹۱) تخریج: أخرجہ البخاری: ۴۱۰۱ (انظر: ۱۴۲۱۱)

Wazahat

فوائد:… اس باب کی احادیث سے معلوم ہواکہ، سرکش، باغی اور ضدی قسم کے جانور بھی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھ کر مطیع و تابع ہو جاتے تھے۔ اونٹ نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے سجدہ کیا۔ یاد رہے کہ اس حدیث میں اونٹ کے سجدہ کرنے سے مراد یہ ہے کہ اس نے اپنا منہ زمین پر رکھ دیا تھا۔ جیسا کہ اسی باب کی حدیث سے واضح ہے۔