Blog
Books
Search Hadith

دختران رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سیدہ رقیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا اور سیدہ ام کلثوم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا تذکرہ

۔ (۱۱۳۸۰)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ رُقَیَّۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا لَمَّا مَاتَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَا یَدْخُلِ الْقَبْرَ رَجُلٌ قَارَفَ أَہْلَہُ۔)) فَلَمْ یَدْخُلْ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ الْقَبْرَ۔ (مسند احمد: ۱۳۴۳۱)

سیّدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیٹی سیدہ رقیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا انتقال ہوا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے آج رات اپنی بیوی سے ہم بستری کی ہو وہ قبر میں داخل نہ ہو۔ پس سیّدنا عثمان بن عفان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ قبر میں داخل نہ ہوئے۔
Haidth Number: 11380
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۱۳۸۰) تخریـج: اسنادہ صحیح علی شرط مسلم أخرجہ الحاکم: ۴/ ۴۷، والطحاوی فی شرح مشکل الآثار : ۲۵۱۲ (انظر: ۱۳۳۹۸)

Wazahat

فوائد:… سیدہ رقیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا اور سیدہ ام کلثوم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا پہلا نکاح بالترتیب انکے چچا زادوں عتبہ بن ابی لہب اور عتیبہ بن ابی لہب سے ہوا، لیکن جب سورۂ لہب نازل ہوئی اور انھوں نے ابو لہب کی مذمت سنی تو انھوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے بغض کا ثبوت دیتے ہوئے ہم بستری سے پہلے ہی ان دونوں بیٹیوں کو طلاق دے دی تھی، پھر سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدہ رقیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے شادی کی اور ان سمیتحبشہ کی طرف ہجرت کر گئے تھے، پھر مکہ واپس لوٹ آئے اورپھر ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچ گئے، جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے غزوۂ بدر میں مصروف تھے، اس وقت سیدہ رقیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا انتقال ہو گیا تھا، سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ان ہی کی خدمت کی وجہ سے غزوۂ بدر میں شریک نہ ہو سکے تھے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غزوۂ بدر سے لوٹے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدہ ام کلثوم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے ذریعے سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو دوبارہ داماد بنا لیا، اس لیے سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو ذو النورین کہتے ہیں، لیکن زندگی نے ساتھ نہ دیا اور شعبان (۹) سن ہجری میں سیدہ ام کلثوم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا وفات پا گئیں۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ غیر محرم اور اجنبی بھی عورت کو دفنا سکتا ہے، کیونکہ سیّدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیٹیوں کے لیے اجنبی تھے۔ بہرحال کسی میت کی تدفین کے سب سے زیادہ مستحق اس کے رشتہ دار ہیں، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {وَاُلُوْا الْاَرْحَامِ بَعْضُھُمْ اَوْلٰی بِبَعْضٍ فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ} (سورۂ انفال: ۷۵) یعنی: اور اللہ تعالیٰ کی کتاب میں رشتہ دار ایک دوسرے کے زیادہ مستحق ہیں۔ نیز آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سیّدنا علی، سیّدنا عباس، سیّدنا فضل اور مولائے رسول سیّدنا صالح نے دفنایا تھا، اگر رشتہ دار نہ ہوں یا معذور ہوں تو دوسرے لوگوں کو تعاون کرنا چاہیے۔ نیزیہ بھی پتہ چلا کہ قبر میں اترنے والے کے لیے شرط یہ ہے کہ اس نے گزشتہ رات کو حق زوجیت ادا نہ کیا ہو۔