Blog
Books
Search Hadith

دختران رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سیدہ رقیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا اور سیدہ ام کلثوم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا تذکرہ

۔ (۱۱۳۸۶)۔ عَنِ السُّدِیِّ قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌یَقُوْلُ: لَوْ عَاشَ اِبْرَاہِیْمُ بْنُ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَکَانَ صِدِّیْقًا نَبِیًّا۔ (مسند احمد: ۱۲۳۸۳)

سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: اگر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بیٹے سیدنا ابراہیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ زندہ رہتے تو وہ سچے نبی ہوتے۔
Haidth Number: 11386
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۱۳۸۶) تخریج: اسنادہ حسن (انظر: ۱۲۳۵۸)

Wazahat

فوائد:… اس موضوع کی موقوف روایات کو بھی مرفوع کا حکم دیا جائے گا، کیونکہ ان کا رائے اور اجتہاد کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسماعیل کہتے ہیں: میں نے سیّدنا ابن ابی اوفی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے پوچھا کہ کیا اس نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بیٹے ابراہیم کو دیکھا ہے۔ انھوں نے کہا: وہ چھوٹی عمر میں ہیفوت ہوگئے تھے، اگر یہ فیصلہ ہو چکا ہوتا کہ محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بعد کسی نبی نے آنا ہے تو ان کو زندگی عطا کر دی جاتی، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ (صحیح بخاری: ۶۱۹۴) سیّدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: جب سیّدنا ابراہیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ فوت ہوئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((اِنَّ لَہٗمُرْضِعًافِیْ الْجَنَّۃِ وَلَوْ عَاشَ لَکَانَ صِدِّیْقًا نَبِیًّا۔)) یعنی: بیشک اس کو دودھ پلانے والی جنت میں ہے، اور اگر یہ (میرا بیٹا) زندہ رہتا تو صِدِّیق اور نبی ہوتا۔ (ابن ماجہ: ۱۵۱۱، ولھذا القدر من الحدیث شواہد) قادیانی ذہن کے لوگوں نے اس حدیث اور ان اقوال کی روشنی میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے خاتم النبیین ہونے کا انکار کیا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ان واضح ترین شرعی دلائل کا کیا جائے گا، جن میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر نبوت و رسالت کے ختم ہو جانے کی وضاحت کی گئی ہے، دوسری بات یہ ہے کہ تعلیق بالمحال کا نتیجہ بھی محال ہوتا ہے، یعنی نہ سیّدنا ابراہیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ زندہ رہے اور نہ ان کو نبوت ملی۔ اس قسم کی تعلیق تو قرآن مجید میں بھی کثرت سے استعمال ہوئی ہے۔ مثلا: ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {لَئِنْ اَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ وَلَتَکُوْنَنَّ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ۔} (سورۂ زمر: ۶۵) یعنی: (اے محمد!) اگر تو نے شرک کیا توتیرے عمل ضائع ضرور ضرور ضائع ہو جائیں گے اور ضرور ضرور تو خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائے گا۔ مزید ارشاد ہوا: {وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ اَھْوَائَ ھُمْ بَعْدَ مَا جَائَ کَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَکَ مِنَ اللّٰہِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّلَا نَصِیْرٍ۔} (سورۂ بقرہ: ۱۲۰) یعنی: (اے محمد!) اگر تو نے اپنے پاس علم آ جانے کے بعد ان کی خواہشات کی پیروی کی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تیرا کوئی دوست اور مددگار نہیں ہو گا۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ نہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے یہ امور ہونے تھے اور نہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کا انجامِ بد بھگتنا تھا، اسے تعلیق بالمحال کہتے ہیں، قرآن مجید میں کئی مقامات پر ایسی مثالیں پائی جاتی ہیں۔ اس لیے سیّدنا ابراہیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے متعلقہ اس حدیث ِ مبارکہ کا مفہوم یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے علم میں یہ فیصلہ ہو چکا ہوتا کہ سیّدنا ابراہیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ زندہ رہیں تو وہ صِدِّیق اور نبی ہوتے، لیکن چونکہ حضرت محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خاتم الانبیاء ہیں اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بعد نبوت کا سلسلہ بند ہو چکا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ کے ارادے نے یہ تقاضا کیا کہ وہ بچپنے میں ہی فوت جائیں، لہٰذا اس سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ختم نبوت کی نفی نہیں ہوتی۔ شیخ البانی ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌نے کہا: یہ روایات اگرچہ موقوف ہیں، لیکن ان کا حکم مرفوع کا ہے، کیونکہ ان کا تعلق ایسے غیبی امور سے ہے کہ جن میں رائے کی کوئی گنجائش نہیں ہے، بہرحال ان کی معرفت کے بعد ان سے قادیانیوں کا نبوت کے جاری رہنے کا استدلال کرنا باطل ہو جاتا ہے، بلکہ یہدلیل الٹا ان کے خلاف جا رہی ہے، کیونکہ اس میں تو یہ وضاحت کر دی گئی ہے کہ سیّدنا ابراہیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی بچپنے میں وفات کا سبب ہییہی تھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بعد کسی نبی نے نہیں آنا۔ (سلسلہ ضعیفہ: ۲۲۰) اس قسم کی ایک مثال یہ ہے: سیّدنا عقبہ بن عامر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((لَوْ کَانَ بَعْدِيْ نَبِيٌّ، لَکَانَ عُمَرَ۔)) (جامع الترمذی: ۲/۲۹۳، الصحیحۃ:۳۲۷) یعنی: اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ( ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ) ہوتا۔ چونکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بعد کسی نبی نے نہیں آنا تھا، اس لیے سیّدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی اس درجے پر فائز نہ ہو سکے، دراصل اس حدیث میں سیّدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی صلاحیت، لیاقت، قابلیت، اہلیت، حق گوئی اور حق کے قریب ہونے کی نشاندہی کی گئی ہے۔