Blog
Books
Search Hadith

رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی دسویں زوجہ ام المؤمنین سیدہ جویریہ بنت الحارث ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا

۔ (۱۱۴۵۸)۔ عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ، عَنْ عَائِشَۃَ أُمِّ الْمُؤْمِنِینَ قَالَتْ: لَمَّا قَسَمَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سَبَایَا بَنِی الْمُصْطَلِقِ، وَقَعَتْ جُوَیْرِیَۃُ بِنْتُ الْحَارِثِ فِی السَّہْمِ لِثَابِتِ بْنِ قَیْسِ بْنِ شَمَّاسٍ أَوْ لِابْنِ عَمٍّ لَہُ وَکَاتَبَتْہُ عَلٰی نَفْسِہَا، وَکَانَتْ امْرَأَۃً حُلْوَۃً مَلاَّحَۃً لَایَرَاہَا أَحَدٌ إِلَّا أَخَذَتْ بِنَفْسِہِ، فَأَتَتْ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تَسْتَعِینُہُ فِی کِتَابَتِہَا، قَالَتْ: فَوَاللّٰہِ مَا ہُوَ إِلَّا أَنْ رَأَیْتُہَا عَلٰی بَابِ حُجْرَتِی فَکَرِہْتُہَا، وَعَرَفْتُ أَنَّہُ سَیَرٰی مِنْہَا مَا رَأَیْتُ، فَدَخَلَتْ عَلَیْہِ فَقَالَتْ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَنَا جُوَیْرِیَۃُ بِنْتُ الْحَارِثِ بْنِ أَبِی ضِرَارٍ سَیِّدِ قَوْمِہِ، وَقَدْ أَصَابَنِی مِنَ الْبَلَائِ مَا لَمْ یَخْفَ عَلَیْکَ، فَوَقَعْتُ فِی السَّہْمِ لِثَابِتِ بْنِ قَیْسِ بْنِ الشَّمَّاسِ أَوْ لِابْنِ عَمٍّ لَہُ فَکَاتَبْتُہُ عَلٰی نَفْسِی، فَجِئْتُکَ أَسْتَعِینُکَ عَلٰی کِتَابَتِی، قَالَ: ((فَہَلْ لَکِ فِی خَیْرٍ مِنْ ذٰلِکِ؟)) قَالَتْ: وَمَا ہُوَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ؟ قَالَ: ((أَقْضِی کِتَابَتَکِ وَأَتَزَوَّجُکِ۔)) قَالَتْ: نَعَمْ، یَا رَسُولَ اللّٰہِ، قَالَ: ((قَدْ فَعَلْتُ۔)) قَالَتْ: وَخَرَجَ الْخَبَرُ إِلَی النَّاسِ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تَزَوَّجَ جُوَیْرِیَۃَ بِنْتَ الْحَارِثِ، فَقَالَ النَّاسُ: أَصْہَارُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَرْسَلُوا مَا بِأَیْدِیہِمْ، قَالَتْ: فَلَقَدْ أَعْتَقَ بِتَزْوِیجِہِ إِیَّاہَا مِائَۃَ أَہْلِ بَیْتٍ مِنْ بَنِی الْمُصْطَلِقِ، فَمَا اَعْلَمُ امْرَأَۃً کَانَتْ اَعْظَمَ بَرَکَۃً عَلٰی قَوْمِہَا مِنْہَا۔ (مسند احمد: ۲۶۸۹۷)

سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: جب اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بنو مصطلق کے قیدیوں کو صحابہ میں تقسیم کیا تو جویریہ بنت حارث، سیدنا ثابت بن قیس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ یا ان کے چچا زاد کے حصہ میں آئیں۔ سیدہ جویریہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے فوراً ان سے مکاتبت کر لی (کہ وہ اتنے عرصے میں اتنی رقم دے کر آزاد ہو جائے گی)، یہ کافی دل کش خاتون تھیں، جو کوئی انہیں دیکھتا، بس وہ دیکھتا ہی رہ جاتا۔ یہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آئیں تا کہ اپنی مکاتبت کے سلسلہ میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے تعاون حاصل کر سکیں۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: جب میں نے ان کو اپنے کمرہ کے دروازے پر دیکھا تو غیرت کے مارے وہ مجھے اچھی نہ لگیں، میں جانتی تھی کہ ان کے متعلق میں جو کچھ دیکھ رہی ہوں، آپ بھی ضرور وہی محسوس کریں گے (کہ یہ کافی خوبصورت ہے اور اس سے شادی کر لینی چاہیے)۔ چنانچہ وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں گئیں اور کہا: میں اپنی قوم کے سردار حارث بن ابی ضرارکی دختر ہوں، مجھ پر جو آزمائش آئی ہے، وہ آپ سے پوشیدہ نہیں۔ اب میںثابت بن قیس بن شماس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ یا ان کے چچا زاد کے حصے میں آ گئی ہوں، میں نے اپنی آزادی کا ان سے ایک معاہدہ کیا ہے، میں اس سلسلہ میں آپ سے تعاون حاصل کرنے کے لیے حاضر ہوئی ہوں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تمہیں اس سے بہتر چیز کی رغبت ہے؟ انہوںنے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول! وہ کیا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ یہ کہ تمہارے معاہدہ کی ساری رقم میں ادا کردوں اور تمہارے ساتھ نکاح کر لوں۔ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ ٹھیک ہے، میں راضی ہوں۔ سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا بیان ہے کہ جب لوگوں میں یہ خبر پھیلی کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جویریہ بنت حارث سے نکاح کر لیا ہے۔ تو لوگوں نے کہا کہ یہ قیدی تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سسرال ہوئے۔ تو انہوںنے اپنے اپنے حصے کے قیدیوں کو آزاد کر دیا۔ ان کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے جویریہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ساتھ نکاح کے نتیجہ میں بنو مصطلق کے سو گھروں کے لوگ آزاد ہوگئے، میں کسی ایسی عورت کو نہیں جانتی جو ان سے بڑھ کر اپنی قوم کے لیے با برکت ثابت ہوئی ۔
Haidth Number: 11458
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۱۴۵۸) تخریج: اسنادہ حسن، اخرجہ ابوداود: ۳۹۳۱ (انظر: ۲۶۲۶۵)

Wazahat

فوائد:… غزوہ بنو المصطلق میں اس قبیلہ کے بہت سے لوگ قیدی ہوئے۔ انہی میں اس قبیلہ کے سردار حارث بن ابی ضرار کی دختر جویریہ بھی تھیں۔ یہ گرفتاری ان کے لیے باعث سعادت بن گئی۔ قیدیوں کی تقسیم ہوئی تویہ ثابت بن قیس بن شماس یا ان کے چچا زاد کے حصہ میں آئیں۔ انہوںنے اس سے مکاتبت یعنی کچھ رقم دے کر آزاد ہونے کا معاہدہ کر لیا۔ تعاون کے سلسلہ میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آئیں تو آپ نے ان کی ساری رقم ادا کرکے ان سے نکاح کا عندیہ دیا۔ انہوںنے اس سے موافقت کرلی۔ اور اس طرح انہیں ام المؤمنین اور زوجۂ نبی ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ نکاح کے سبب بنو مصطلق نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سسرال قرار پائے۔تو صحابۂ کرام نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سسرالی قبیلہ کے افراد کو قیدی بنا کر رکھناگوارانہ کیا اور انہیں آزاد کر دیا۔ شرح مسند میں ہے کہ ان کی تعداد سات سو تھی۔ اس طرح ام المؤمنین سیدہ جویریہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا اپنی قوم کے لیے انتہائی بابرکت ثابت ہوئیں۔ الاصابہ میں ہے کہ غزوۂ بنی المصطلق کو غزوۃ المریسیع بھی کہا جاتا ہے۔ یہ پانچ یا چھ ہجری میں پیش آیا۔ ابن سعد ابن ابی خیثمہ اور ابو عمر نے ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے بیان کیا کہ اس سے قبل ان کانام برہ تھا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے بدل کر جویریہ رکھا۔