Blog
Books
Search Hadith

سیدہ صفیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے فضائل اور اس کا بیان کہ وہ امہات المؤمنین میں سے ہیں، نیز اس چیز کی وضاحت کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدہ صفیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی وجہ سے ام المؤمنین سیدہ زینب بنت جحش ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے تین ماہ تک مقاطعہ کر لیا تھا

۔ (۱۱۴۶۶)۔ عَنْ صَفِیَّۃَ بِنْتِ حُیَیٍّ: أَنَّ النَّبِیَّ حَجَّ بِنِسَائِہٖ،فَلَمَّاکَانَفِی بَعْضِ الطَّرِیْقِ، نَزَلَ رَجُلٌ فَسَاقَ بِھِنَّ فَأَسْرَعَ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((کَذَاکَ سَوْقُکَ بِالْقَوَارِیْرِ۔)) فَبَیْنَمَا ھُمْ یَسِیْرُوْنَ بَرَکَ بَصَفِیَۃَ بِنْتِ حُیَیٍّ جَمَلُھَا، وَکَانَتْ مِنْ أَحْسَنِھِنَّ ظَھْراً فَبَکَتْ۔ وَجَائَ رَسُوْلُ اللّٰہَ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حِیْنَ أُخْبِرَ بِذٰلِکَ فَجَعَلَ یَمْسَحُ دُمُوْ عَھَا بِیَدِہٖ، وَجَعَلَتْ تَزْدَادُ بُکَائً وَھُوَ یَنْھَاھَا، فَلَمَّا أَکْثَرَتْ زَبَرَھَا وَانْتَھَرَھَا، وَأَمَرَالنَّاسَ بِالنُّزُوْلِ فَنَزَلُوْا، وَلَمْ یَکُنْیُرِیْدُ أَن یَّنْزِلَ، قَالَتْ: فَنَزَلُوْا، وَکَانَ یَوْمِی، فَلَمَّا نَزَلُوْا ضُرِبَ خِبَائُ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَدَخَلَ فِیْہِ، قَالَتْ: فَلَمْ أَدْرِ عَلَامَ أَھْجُمُ مِن رَّسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَخَشِیْتُ أَن یَّکُوْنَ فِی نَفْسِہٖشَیْئٌ مِنِّی۔ قَالَتْ: فَانْطَلَقْتُ إِلٰی عَائِشَۃَ فَقُلْتُ لَھَا: تَعْلَمِیْنَ أَنِّی لَمْ أَکُنْ أَبِیْعُیَوْمِی مِن رَّسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِشَیْئٍ أَبَداً وَإِنِّی قَدْ وَھَبْتُ یَوْمِی لَکِ عَلٰی أَنْ تُرْضِیَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنِّی! قَالَتْ: نَعَمْ قَالَتْ: فَأَخَذَتْ عَائِشَۃُ خِمَاراً لَّھَا قَدْ ثَرَّدَتْہُ بِزَعْفَرَانَ، فَرَشَّتْہُ بِالْمَائِ لِیُذَکّٰی رِیْحُہُ، ثُمَّ لَبِسَتْ ثِیَابَھَا، ثُمَّ انْطَلَقَتْ إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَرَفَعَتْ طَرْفَ الْخِبَائِ، فَقَالَ لَھَا: ((مَالَکِ یَاعَائِشَۃُ؟! إِنَّ ھٰذَا لَیْسَ بِیَوْمِکِ۔)) قَالَتْ: ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُوْتِیْہِ مَن یَّشَائُ فَقَالَ مَعَ أَْھِلِہٖفَلَمَّاکَانَعِنْدَالرَّوَاحِ،قَالَلِزَیْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ: ((یَازَیْنَبُ! أَفْقِرِیْ أُخْتَکِ صَفِیَّۃَ جَمَلاً۔)) وَکَانَتْ مِنْ اَکْثَرِ ھِنَّ ظَھْراً، فَقَالَتْ: أَنَاأُفْقِرُیَھُوْدِیَّتَکَ! فَغَضَبِ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حِیْنَ سَمِعَ ذٰلِکَ مِنْھَا، فَھَجَرَھَا فَلَمْ یُکَلِّمْھَا حَتّٰی قَدِمَ مَکَّۃَ وَأَیَّامَ مِنٰی فِی سَفَرِہٖ،حَتّٰی رَجَعَ إِلٰی الْمَدِیْنَۃِ، وَالْمُحَرَّمُ وَصَفَرٌ، فَلَمْ یَأْتِھَا وَلَمْ یَقْسِمْ لَھَا، وَیَئِسَتْ مِنْہُ فَلَمَّاکَانَ شَھْرُ رَبِیْعِ الأَوَّلِ، دَخَلَ عَلَیْھَا، فَرَأَتْ ظِلَّّہُ، فَقَالَتْ: إِنَّ ھٰذَا لَظِلُّ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَمَایَدْخُلُ عَلَیَّ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَمَنْ ھٰذَا؟ فَدَخَلَ النَّبِیَُ فَلَمَّا رَأَتْہُ قَالَتْ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! مَأاَدْرِی مَاأَصْنَعُ حِیْنَ دَخَلْتَ عَلَیَّ؟ قَالَتْ: وَکَانَتْ لَھَا جَارِیَۃٌ وَکَانَتْ تُخْبِئُھَا مِنَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَتْ: فُلَانَۃٌ لَکَ، فَمَشٰی النَبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلٰی سَرِیْرِ زَیْنَبَ وَکَانَ قَدْ رُفِعَ فَوَضَعَہُ بِیَدِہٖ، ثُمَّ اَصَابَ أَھْلَہُ، وَرَضِیَ عَنْہُمْ۔ (مسند احمد: )

سیدہ صفیہ بنت ِ حیی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی بیویوں کے ساتھ حج کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کہیں راستہ میں تھے کہ ایک آدمی اترا، اور عورتوں کی سواریوں کو تیز تیز چلانے لگا۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس طرح شیشوں (عورتوں) کو لے کر چلتے ہیں؟ سو وہ چل رہے تھے کہ صفیہ بنت حیی کا اونٹ بیٹھ گیا،حالانکہ ان کی سواری سب سے اچھی تھی،وہ رونے لگ گئیں۔ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو پتہ چلا تو آپ تشریف لائے اور اپنے ہاتھ سے ان کے آنسوپونچھنے لگ گئے، وہ اور زیادہ رونے لگیں اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کو منع کرتے رہے۔جب وہ بہت زیادہ رونے لگ گئیں تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو ڈانٹ ڈپٹ کی اور لوگوں کو اترنے کا حکم دے دیا، سو وہ اتر گئے،اگرچہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا اترنے کا ارادہ نہیں تھا۔وہ کہتی ہیں:صحابہ کرام اتر پڑے اور اس دن میری باری تھی۔ جب صحابہ اترے تو نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا خیمہ نصب کیا گیا، آپ اس میں داخل ہوگئے۔ وہ کہتی ہیں:یہ بات میری سمجھ میں نہ آ سکی کہ میں کیسے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس گھس جاؤں اور مجھے یہ ڈر بھی تھا کہ (ممکن ہے کہ) آپ کے دل میں میری بارے میں کوئی ناراضی ہو۔ وہ کہتی ہیں: میں عائشہ کے پاس گئی اور ان سے کہا: تم جانتی ہو کہ میں کسی چیز کے عوض اپنے دن کا سودا نہیں کروں گی، لیکن میں تجھے اپنی باری کا دن اس شرط پر ہبہ کرتی ہوں کہ تم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو مجھ سے راضی کروا دو۔ انھوں نے کہا: ٹھیک ہے۔ اب وہ کہتی ہیں: عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے زعفران میں رنگی ہوئی چادر لی اور اس پر پانی چھڑکا تاکہ اس کی خوشبو تروتازہ ہوجائے، پھر اپنے کپڑے زیبِ تن کئے، پھر رسول اللہ کی طرف چلی گئیں اور (جا کر) خیمہ کا ایک کنارہ اٹھایا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: اے عائشہ! تجھے کیا ہوا؟ یہ دن تیرا تو نہیں ہے۔ انھوں نے کہا: یہ اللہ کا فضل ہے، وہ جسے چاہتا ہے، عطا کرتا ہے۔ آپ نے اپنی اہلیہ کے پاس دوپہر کو آرام کیا۔ جب شام ہوئی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے زینب بنت جحش سے فرمایا: اے زینب! اپنی بہن صفیہ کو ایک اونٹ مستعار دے دو۔ کیونکہ ان کے پاس سواریاں زیادہ تھیں۔ زینب نے کہا: کیا میں آپ کییہودیہ کو مستعار دے دوں؟یہ بات سن کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس سے ناراض ہو گئے اور اس سے بولنا ترک کر دیا اور اس سے کوئی بات نہ کی، حتی کہ مکہ پہنچ گئے، پھر منی والے دن (بیت گئے) یہاں تک کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مدینہ واپس آ گئے اور محرم اور صفر کے (دو ماہ) بھی گزر گئے، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نہ زینب کے پاس گئے اور نہ ہی اس کے لیے کوئی باری مقرر کی۔ وہ بھی آپ سے نااُمید ہوگئی۔ جب ربیع الاوّل کا مہینہ تھا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کے پاس گئے۔ زینب نے آپ کا سایہ دیکھا اور کہا: یہ تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا سایہ ہے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تو میرے پاس آتے ہی نہیں، سو یہ (سائے والا) کون ہو سکتا ہے؟ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے پاس داخل ہوئے، جب زینب نے آپ کو دیکھا تو کہا: اے اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ! آپ کے آنے سے (مجھے اتنی خوشی ہوئی ہے) کہ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ میں کیا کروں ۔ وہ کہتی ہیں: ان کی ایک لونڈی تھی، جس کو وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے چھپا کر رکھتی تھیں۔پھر اُس نے کہا: فلاں لونڈی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے ہے۔ پھر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم زینب کی چارپائی کی طرف گئے، اُسے اٹھا لیا گیا تھا، آپ نے اُس کو اپنے ہاتھ سے بچھایا، پھر اپنی اہلیہ سے مباشرت کی اور اُن سے راضی ہوئے۔
Haidth Number: 11466
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۱۴۶۶) تخریج: صحیح، قالہ الالبانی (انظر: ۲۶۸۶۶)

Wazahat

فوائد:… سیّدہ زینب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے بتقاضائے بشریت اپنی سوکن کے بارے میں سخت بات کر دی تھی، اس لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو سمجھانے کے لیے دو ماہ سے زیادہ عرصہ تک ان سے قطع تعلقی کی۔ خاوند اور دوسرے مصلِح حضرات کو حکمت و دانائی سے متصف ہونا چاہیے تاکہ جرم اور مجرم کی نوعیت و کیفیت کو سمجھ کر فیصلہ کیا جائے کہ یہ معاملہ نرمی سے حل ہو جائے گا یا سختی سے کام لینا پڑے گا، جو رویہ باعث ِ عبرت ہو گا، اسے اختیار کیا جائے گا۔ اس حدیث سے درج ذیل امور کی توضیح بھی ہو رہی ہے: یہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اپنی زوجات کے حق میں نرمی ہے کہ ان کی سواریوں کو تیز چلانے سے روک دیا، نیز اپنی بیوی کو حوصلہ دلانے کے لیے اس کے آنسو پونچھنا کمال شفقت کا انداز ہے۔ کسی شخص کو اس کے سابقہ مذہب یا اس کے کسی گناہ کی وجہ سے اس پر طعن نہیں کیا جا سکتا، سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کو اس کے جرم کی سزا ملی اور دو ماہ سے زیادہ عرصہ تک آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کے قریب نہیں گئے۔نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو نورِ مجسم ثابت کرنے والے لوگوں کا خیال ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا سایہ نہیں تھا، اس حدیث سے اس خیال کی تردید ہو رہی ہے، کیونکہ سیدہ زینب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سائے کی وضاحت کر دی ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بشر تسلیم نہ کرنا ہی عقیدے کی خرابی ہے، کئی آیات و احادیث میں اس کی وضاحت موجود ہے۔ حدیث کے شروع میں عورتوں کو شیشے سے تشبیہ دی گئی ہے، اس سے مراد عورتوں کی رقت، ضعف اور نزاکت ہے اور یہ مفہوم بھی بیان کیا گیا ہے کہ عام طور پر خواتین وفا پر دوام اختیار نہیں کر سکتیں اور بہت جلدی رضامندی کی حالت سے پھر جاتی ہیں، جیسے شیشہ جلدی ٹوٹ جاتا ہے۔ بہرحالیہ ایک بدیع استعارہ ہے، جس کے ذریعے عورتوں سے نرمی کرنے پر آمادہ کیا جا رہا ہے۔