Blog
Books
Search Hadith

نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے خطوط اور کاتبین کا بیان اور اس میں کئی فصلیں ہیں فصل اول: غیر مسلم حکمرانوں کے نام رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے مکتوبات کا بیا ن

۔ (۱۱۵۰۴)۔ عَنْ کَثِیْر بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ الْمُزَنِیِّ عَنْ اَبِیْہِ عَنْ جَدِّہِ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَقْطَعَ بِلَالَ بْنَ الْحَارِثِ مَعَادِنَ الْقَبَلِیَّۃِ جَلْسِیَّہَا وَغَوْرِیَّہَا وَحَیْثُیَصْلُحُ لِلزَّرْعِ مِنْ قُدْسٍ وَلَمْ یُعْطِہِ حَقَّ مُسْلِمٍ وَکَتَبَ لَہُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ، ھٰذَا مَا أَعْطٰی مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِلَالَ بْنَ الْحَارِثِ الْمُزَنیِّ أَعْطَاہُ مَعَادِنَ الْقَبَلِیَّۃِ جَلْسِیَّہَا وَغَوْرِیَّہَا وَحَیْثُیَصْلُحُ لِلزَّرْعِ مِنْ قُدْسٍ وَلَمْ یُعْطِہِ حَقَّ مُسْلِمٍ۔)) (مسند احمد: ۲۷۸۵)

عمرو بن عوف اپنے باپ اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا بلال بن حارث ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو قبلیہ علاقے کی کانیں برائے جاگیر عنایت فرمادیں، اس مقام کی بلند اور پست زمین اور قدس پہاڑ میں جو کاشت کے قابل تھی، وہ سب انہیں دے دی تھی، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو کسی مسلمان کا حق نہیں دیا تھا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے حق میں یہ تحریر لکھی تھی: بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ،یہ وہ زمین ہے، جو محمد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بلال بن حارث مزنی کو دی ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو قبلیہ علاقے کی کانیں دی ہیں، اس مقام کی بلند اور پست زمین اور قدس پہاڑ میں جو کاشت کے قابل ہے، وہ ان کو دے دی ہے، جبکہیہ کسی مسلمان کا حق نہیں تھا، جو ان کو دے دیا ہو۔
Haidth Number: 11504
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۱۵۰۴) تخریج: حسن لغیرہ، أخرجہ ابوداود: ۳۰۶۲، ۳۰۶۳ (انظر: ۲۷۸۵)

Wazahat

فوائد:… یہ زمین بھی کسی کی مملوکہ نہ تھی، حاکم وقت ایسی قیمتی چیز بھی کسی کو الاٹ کر سکتا ہے، لیکنیہاں ایک اور روایت بھی قابل توجہ ہے: سیدنا ابیض بن حمال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ان کے سوال پر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو نمک کی کان عنایت کر دی،یہ معاملہ دیکھ کر حاضرین میں سے ایک آدمی نے کہا: آپ نے تو اس شخص کو دائمی منفعت عطا کر دی ہے، یہ سن کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے یہ کان واپس لے لی۔ (ابوداود: ۳۰۶۴، ترمذی: ۱۳۸۰) اس باب کی حدیث کے مطابق آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کان الاٹ کر دی، لیکن سیدنا ابیض ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ کان جیسی چیز کسی خاص بندے کو الاٹ نہیں کرنی چاہیے، ان دو احادیث میں جمع و تطبیق کی صورت یہ ہے کہ کان کی دو قسمیں ہوتی ہیں: (۱) باطنی کانیں: یہ وہ کانیں ہوتی ہیں، جن کے حصول کے لیے محنت و مشقت درکار ہوتی ہے، مثلا لوہا اور تانبا وغیرہ۔ (۲) ظاہری کانیں: یہ وہ کانیں ہوتی ہیں، جن کے حصول کے لیے مشقت درکار نہیں ہوتی، جیسے نمک، تیل اور سرمہ وغیرہ۔ حکمران کسی کوباطنی کانیں تو الاٹ کر سکتا ہے، جیسا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا بلال بن حارث ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو دی تھی، لیکن ظاہری کانیں کسی کو عنایت نہیں کرنی چاہئیں، تاکہ سارے لوگ برابر کا فائدہ حاصل کرسکیں اور ان پر کوئی تنگی نہ ہو، سیدنا ابیض ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی حدیث کا یہی مفہوم ہے۔