Blog
Books
Search Hadith

انصار کے فضائل و مناقب

۔ (۱۱۵۳۰)۔ عَنْ اَبِیْ قَتَادَۃَ یَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ عَلَی الْمِنْبَرِ لِلْأَنْصَارِ: ((أَلَا إِنَّ النَّاسَ دِثَارِی وَالْأَنْصَارَ شِعَارِی، لَوْ سَلَکَ النَّاسُ وَادِیًا وَسَلَکَتِ الْأَنْصَارُ شِعْبَۃً لَاتَّبَعْتُ شِعْبَۃَ الْأَنْصَارِ، وَلَوْلَا الْہِجْرَۃُ لَکُنْتُ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ، فَمَنْ وَلِیَ مِنَ الْأَنْصَارِ فَلْیُحْسِنْ إِلٰی مُحْسِنِہِمْ وَلْیَتَجَاوَزْ عَنْ مُسِیئِہِمْ، وَمَنْ أَفْزَعَہُمْ فَقَدْ أَفْزَعَ ہٰذَا الَّذِی بَیْنَ ہَاتَیْنِ)) وَأَشَارَ إِلٰی نَفْسِہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ (مسند احمد: ۲۲۹۸۹)

سیدنا ابو قتادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم منبر پر تشریف فرما تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم انصار کے حق میں فرمایا: عام لوگوں کے میرے ساتھ تعلق کی مثال ایسے ہے جیسے اوپر اوڑھا ہوا کپڑا ہو اور انصار کا میرے ساتھ یوں تعلق ہے جیسے کوئی کپڑا جسم کے ساتھ متصل ہو (یعنی انصاری آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے خاص لوگ ہیں)۔ اگر عام لوگ ایک وادی میں چلیں اور انصار دوسری پہاڑی گھاٹی میں تو میں انصار والی گھاٹی میں چلنا پسند کروں گا اور اگر ہجرت والی فضیلت نہ ہوتی تو میں بھی انصار کا ایک فرد ہوتا۔ کسی کو انصار پر امارت و حکومت حاصل ہو تو وہ ان کے نیکوکاروں کے ساتھ حسن سلوک کا برتائو کرے، اور اگر ان میں سے کوئی کوتاہی ہو جائے تو وہ اس سے در گزر کرے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی طرف اشارہ کرکے فرمایا: جس کسی نے ان کو خوف زدہ کیا تو گویا اس نے مجھے خوف زدہ کیا ۔
Haidth Number: 11530
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۱۵۳۰) تخریج: صحیح لغیرہ، اخرجہ الطبرانی فی الاوسط : ۸۸۹۲ (انظر: ۲۲۶۱۵)

Wazahat

فوائد:… یہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا انصار کے ساتھ کمال محبت کا اظہار ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اُن کی گھاٹی میں چلنا پسند کریں گے۔ ! یہ حدیث موقوف یعنی عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا قول ہے، اس لیے اس سے کسی شرعی مسئلہ کا استدلال نہیں ہو سکتا۔ (عبداللہ رفیق) انصار وہ لوگ ہیں، جو مدینہ میں رہائش پذیر تھے، انھوں نے پہلے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اپنے شہر میں پناہ دی، پھر ہر موقع پر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی مدد اور حفاظت فرمائی اور مدینہ آنے والے مہاجرین کی بھی خوب دل پذیرائی اور تواضع کی اور اپنا سب کچھ ان کی خدمت میں پیش کر دیا۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مکہ مکرمہ کی سرزمین میں دین ِ الہی کی تبلیغ شروع کی، توحید و سنت کی دعوت جاری رکھی، لیکن لوگ نہ صرف شرک و بدعت پر ڈٹے رہے، بلکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا قلعہ قمع کرنے کے لیے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ ہونے دیا۔ ایک انصاری صحابی سیدنا جابر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں (خلاصہ یہ ہے): اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مکہ میں تقریبا دس سال مقیم رہے، لوگوں کے پیچھے ان کے گھروں، ڈیروں اور عکاظ و مجنہ کی مارکیٹوں میں جا کر نوائے حق بلند کرتے رہے، حج کے موقع پر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم منٰی کے مقام پر لوگوں سے کہتے: ((مَنْ یُّؤْوِیْنِیْ؟ مَنْ یَّنْصُرُنِیْ؟ حَتّٰی أُبَلِّغَ رِسَالَاتِ رَبِّیْ وَلَہُ الْجَنَّۃ۔))… کوئی ہے جو مجھے پناہ مہیا کرے؟ کوئی ہے جو میری مدد کرے؟ تاکہ میں اپنے ربّ کا پیغام پہنچا سکوں، (جو ایسا کرے گا) اسے جنت ملے گی۔ یہ سلسلہ جاری رہا، حتی کہ ہم انصاری لوگ یثرب (یعنی مدینہ) سے اٹھ کھڑے ہوئے، ہم نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ٹھکانا مہیا کیا اور آپ کی سچائی کا اعلان کیا۔ ہم اکا دکا کر کے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس پہنچتے، قرآن سنتے اور گھر واپس پلٹ کر یہ پیغام اپنے گھر والوں تک پہنچاتے۔ بالآخر ہم نے مشورہ کیا کہ کب تک یہی سلسلہ جاری رہے گا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مکہ کے پہاڑوں میں مارے مارے ٹھوکریں کھاتے رہیں اور شرک پرستوں سے ڈرتے رہیں، چنانچہ سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق حج کے موقع پر ہم ستر انصاری حج کے موسم میں عقبہ (گھاٹی) میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس پہنچ گئے اور آپ کی بیعت کی اور مدینہ منورہ میں تشریف لانے کی دعوت دی۔ (مسند احمد) یہ انصار ہی وہ صحابہ تھے جو اسلام، بانی ٔ اسلام اور اہل اسلام کا سہارا بنے اور سارے عرب سے اعلانِ جنگ کیا۔ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جاں نثاروں سمیت ہجرت کی گھاٹیاں طے کر کے مدینہ منورہ جلوہ افروز ہوئے تو انصار صحابہ نے تائید و نصرت، محبت و الفت، اخوت و بھائی چارہ اور برادری و بھائی بندی کی جو مثال پیش کی، ماضی میں اس کی نظیر ملی نہ مستقبل میں امید ہے۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبد الرحمن بن عوف انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اپنے مہاجر بھائی سیدنا سعد بن ربیع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: تم میرا آدھا مال لے لو اور میری دو بیویاں ہیں، ان کو دیکھ لو، جو تمہیںپسند ہو، میں اسے طلاق دے دیتا ہوں، عدت گزرنے کے بعد شادی کر لینا۔ (بخاری) پھر دس سال کی طویل مدت تک یہ انصار، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے دست و بازو بنے رہے۔ یہی وجوہات ہیں کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے دل میں ان لوگوں کی محبت تھی۔ انصار نے اپنے خون سے شجرِ اسلام کی آبیاری کی، اپنے شہر کو مرکزِ اسلام قرار دیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مکہ میں یہ اعلان کرتے تھے کہ قریشیوںنے مجھے تبلیغِ اسلام سے روک رکھا ہے، کون ہے جو مجھے پناہ دے، تاکہ میں ربّ کا پیغام لوگوں تک پہنچا سکوں؟ انصاریوں نے مال و جان داؤ پر لگا کر اور دوستوں کی دشمنیاں مول لے کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی آواز پر لبیک کہا۔ مہاجرین، جو اسلام کا سرمایہ تھے، کو اپنے گھروں اور جائدادوں میں حصہ دار قرار دیا۔ ان نفوس قدسیہ کی محبت کو ایمان کی علامت اور ان سے نفرت کو منافقت کی علامت قرار دیا گیا۔ جو بد بخت اسلام کے ان سپوتو ں اور ستونوں کا پاس لحاظ نہیں کرتا، اسے ایمان و ایقان کی نعمت کیسے نصیب ہو گی۔