Blog
Books
Search Hadith

بدر اور حدیبیہ میں شریک ہونے والے صحابہ کی فضیلت

۔ (۱۱۶۰۲)۔ عَنْ أُمِّ مُبَشِّرٍ اِمْرَأَۃِ زَیْدِ بْنِ حَارِثَۃَ قَالَتْ: جَائَ غُلَامُ حَاطِبٍ فَقَالَ: وَاللّٰہِ! لَا یَدْخُلُ حَاطِبٌ الْجَنَّۃَ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((کَذَبْتَ قَدْ شَہِدَ بَدْرًا وَالْحُدَیْبِیَۃَ۔)) (مسند احمد: ۲۷۵۸۵)

سیدہ ام مبشر زوجہ زید بن حارثہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ سیدنا حاطب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے غلام نے آکر کہا: اللہ کی قسم! حاطب جنت میں نہیں جائے گا، لیکن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم غلط کہہ رہے ہو، وہ تو بدر اور حدیبیہ میں شرکت کر چکا ہے۔
Haidth Number: 11602
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۱۶۰۲) تخریج: اخرجہ مسلم: ۲۴۹۵(انظر: ۲۷۰۴۵)

Wazahat

فوائد:…سیدنا حاطب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے ایک خطا سرزد ہوئی تھی، جس کا ذکر ذیل میں مذکورہ حدیث میں ہے، ممکن ہے کہ ان کے غلام کا یہی شکوہ ہو، لیکن اس چیز کا بھی احتمال ہے کہ کسی اور وجہ سے اس غلام نے اپنے مالک کی شکایت کی ہو: سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: بَعَثَنِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنَا وَالزُّبَیْرَ وَالْمِقْدَادَ، فَقَالَ: ((انْطَلِقُوا حَتّٰی تَأْتُوا رَوْضَۃَ خَاخٍ فَإِنَّ بِہَا ظَعِینَۃً مَعَہَا کِتَابٌ فَخُذُوہُ مِنْہَا۔)) فَانْطَلَقْنَا تَعَادٰی بِنَا خَیْلُنَا حَتّٰی أَتَیْنَا الرَّوْضَۃَ فَإِذَا نَحْنُ بِالظَّعِینَۃِ، فَقُلْنَا: أَخْرِجِی الْکِتَابَ، قَالَتْ: مَا مَعِی مِنْ کِتَابٍ، قُلْنَا: لَتُخْرِجِنَّ الْکِتَابَ أَوْ لَنَقْلِبَنَّ الثِّیَابَ، قَالَ: فَأَخْرَجَتِ الْکِتَابَ مِنْ عِقَاصِہَا، فَأَخَذْنَا الْکِتَابَ، فَأَتَیْنَا بِہِ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَإِذَا فِیہِ: مِنْ حَاطِبِ بْنِ أَبِی بَلْتَعَۃَ إِلٰی نَاسٍ مِنْ الْمُشْرِکِینَ بِمَکَّۃَ،یُخْبِرُہُمْ بِبَعْضِ أَمْرِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((یَا حَاطِبُ! مَا ہٰذَا؟)) قَالَ: لَا تَعْجَلْ عَلَیَّ إِنِّی کُنْتُ امْرَأً مُلْصَقًا فِی قُرَیْشٍ، وَلَمْ أَکُنْ مِنْ أَنْفُسِہَا، وَکَانَ مَنْ کَانَ مَعَکَ مِنَ الْمُہَاجِرِینَ لَہُمْ قَرَابَاتٌ یَحْمُونَ أَہْلِیہِمْ بِمَکَّۃَ، فَأَحْبَبْتُ إِذْ فَاتَنِی ذٰلِکَ مِنْ النَّسَبِ فِیہِمْ أَنْ أَتَّخِذَ فِیہِمْیَدًایَحْمُونَ بِہَا قَرَابَتِی، وَمَا فَعَلْتُ ذٰلِکَ کُفْرًا وَلَا ارْتِدَادًا عَنْ دِینِی وَلَا رِضًا بِالْکُفْرِ بَعْدَ الْإِسْلَامِ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((إِنَّہُ قَدْ صَدَقَکُمْ۔)) فَقَالَ عُمَرُرَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: دَعْنِی أَضْرِبْ عُنُقَ ہٰذَا الْمُنَافِقِ، فَقَالَ: ((إِنَّہُ قَدْ شَہِدَ بَدْرًا، وَمَا یُدْرِیکَ لَعَلَّ اللّٰہَ قَدِ اطَّلَعَ عَلٰی أَہْلِ بَدْرٍ، فَقَالَ: اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَکُمْ۔)) (صحیح بخاری: ۳۰۰۷، ۴۲۷۴، ۴۸۹۰، صحیح مسلم: ۲۴۹۴، واللفظ لاحمد) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے، سیدنا زبیر اور سیدنا مقدار کو بھیجا اور فرمایا: تم چلو، یہاں تک کہ روضۂ خاخ تک پہنچ جاؤ، وہاں ایک مسافر خاتون کے پاس ایک خط ہو گا، وہ خط اس سے لے لو۔ سو ہم چل پڑے، ہمارے گھوڑے دوڑتے گئے، یہاں تک کہ ہم اس روضہ کے پاس پہنچے، وہاں تو واقعی ایک خاتون موجود تھی، ہم نے اس سے کہا: خط نکال دے، اس نے کہا: میرے پاس تو کوئی خط نہیں ہے، ہم نے کہا: خط نکال دے، وگرنہ ہم تیرے کپڑے اتار دیں گے، یہ سن کر اس نے اپنے بالوں کی لٹ سے خط نکال دیا، ہم نے وہ لیا اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس پہنچ گئے، اس خط میں یہ عبارت لکھی ہوئی تھی: یہ خط حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے مکہ کے مشرکوں کی طرف ہے، …۔ وہ ان کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بعض امور کی خبر دے رہے تھے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے حاطب! یہ کیا ہے؟ انھوں نے کہا: مجھ پر جلدی نہ کرنا (میں تفصیل بتاتا ہوں)، بات یہ ہے کہ میں معاہدے کی بنا پر قریشیوں سے ملا ہوا تھا اور میں نسبی لحاط سے ان میں سے نہیں تھا، آپ کے ساتھ جو مہاجرین ہیں، ان کی قریشیوں سے رشتہ داریاں ہیں، جن کی وجہ سے وہ مکہ میں ان کے رشتہ داروں کی حفاظت کرتے ہیں، جب میں نے دیکھا کہ قریشیوں سے میرا نسب تو ملتا نہیں ہے، اس لیے میں نے سوچا کہ اگر میں ان پر کوئی ایسا احسان کر دوں کہ جس کی وجہ سے وہ میرے رشتہ داروں کی بھی حفاظت کریں (اس مقصد کے لیے میں نے یہ کام کیا ہے)، نہ میں نے یہ کاروائی کفر کرتے ہوئے کی، نہ اپنے دین سے مرتد ہوتے ہوئے اور نہ اسلام کے بعد کفر کو پسند کرتے ہوئے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک شان یہ ہے کہ اس آدمی نے تم سے سچ بولا ہے۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: حضور! چھوڑیئے مجھے، میں اس منافق کی گردن اتار پھینکوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ بدر میں حاضر ہوا تھا، اور تجھے پتہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کی طرف جھانکا اور کہا: آج کے بعد جو چاہو کر گزرو، میں نے تم کو معاف کر دیا ہے۔ سیدنا حاطب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اہل مکہ کو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی تیاری اور آمد کی خبر ارسال کی تھی۔ اس حدیث ِ مبارکہ میں صحابۂ کرام کے مقام و مرتبہ کو سمجھنے کے لیے بہت بڑا نقطہ بیان کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی زبانِ اقدس سے جن صحابہ کی پیشگی معافی کا اعلان ہو چکا ہے، ان سے بعد میں ہونے والی خطاؤں کو نظر انداز کر دیا جائے، کیونکہ جب اللہ تعالیٰ اس مغفرت کا اعلان کروا رہا تھا، اس کو پتہ تھا کہ ان نفوسِ قدسیہ میں سے فلاں آدمی سے اس قسم کی غلطی ہو گی۔ دراصل آغوشِ نبوت کی پروردہ ہستیوں کی نیکیوں کو قبول کرنے اور ان کے بشری تقاضوں کو معاف کرنے کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے ضابطے امت ِ مسلمہ کے دوسرے افراد سے مختلف ہیں۔ دیکھیں سیدنا حاطب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا اتنا بڑا راز فاش کر رہے ہیں اور سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اس کو بڑی سنجیدگی سے لیتے ہوئے ان کو منافق سمجھ کر واجب القتل سمجھا، لیکن نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وضاحت فرما دی کہ ان کی معافی کا اعلان تو پیشگی ہو چکا ہے۔ سبحان اللہ۔ لہذا صحابۂ کرام کے بارے میں زبان درازی کی رائے رکھنے والوں کو محتاط رہنا چاہیے اور اپنے نظریوں کی اصلاح کرنی چاہیے۔