Blog
Books
Search Hadith

سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پھوپھی زاد سیدنا حارثہ بن عمیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ

۔ (۱۱۶۶۷)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، أَنَّ حَارِثَۃَ خَرَجَ نَظَّارًا فَأَتَاہُ سَہْمٌ فَقَتَلَہُ، فَقَالَتْ أُمُّہُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! قَدْ عَرَفْتَ مَوْقِعَ حَارِثَۃَ مِنِّی، فَإِنْ کَانَ فِی الْجَنَّۃِ صَبَرْتُ وَإِلَّا رَأَیْتَ مَا أَصْنَعُ، قَالَ: یَا أُمَّ حَارِثَۃَ! إِنَّہَا لَیْسَتْ بِجَنَّۃٍ وَاحِدَۃٍ وَلٰکِنَّہَا جِنَانٌ کَثِیرَۃٌ، وَإِنَّ حَارِثَۃَ لَفِی أَفْضَلِہَا، أَوْ قَالَ: فِی أَعَلَی الْفِرْدَوْسِ شَکَّ یَزِیدُ۔ (مسند احمد: ۱۲۲۷۷)

سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے ر وایت ہے کہ سیدنا حارثہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ جاسوسی کے لیے گئے،اچانک انہیں ایک تیر آلگا اور وہ شہید ہوگئے،ان کی والدہ نے کہا: اللہ کے رسول! آپ جانتے ہیں کہ میرا حارثہ کے ساتھ کتنا گہرا تعلق ہے، اب اگر وہ جنت میں ہے تو میں صبر کرتی ہوں، وگر نہ آپ دیکھیںگے کہ میں کیا کرتی ہوں۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے ام حارثہ! جنت ایک تو نہیں ہے، کئی جنتیں ہیں اور حارثہ تو افضل جنت میں ہے۔ یا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یوں فرمایا کہ وہ تو جنت الفردوس کے اعلیٰ مقام میں ہے۔ ایک روایت میں ہے: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ام حارثہ! جنتیں بہت سی ہیں اور حارثہ اعلیٰ جنت الفردوس میں ہے۔
Haidth Number: 11667
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۱۶۶۷) تخریج: أخرجہ البخاری: ۶۵۶۷ (انظر: ۱۲۲۵۲)

Wazahat

فوائد:… صحیح بخاری کی روایت میں ہے کہ سیدنا حارثہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کم سن تھے، یہ غزوۂ بدر میں شریک تو ہوئے تھے، لیکن ان کی شرکت ایک مقاتل اور جنگجو کی حیثیت سے نہ تھی اور نہ ہییہ دشمن سے لڑنے کے لیے گئے تھے، یہ دشمن کے حالات معلوم کرنے کے لیے نکلے تھے کہ دشمن کا ایک تیر ان کو آلگا اور یہ شہید ہوگئے۔ ان کی والدہ کو خیال گزرا کہ مقام شہادت اور جنت ان لوگوں کے لیے ہے جو دشمن سے لڑتے ہوئے شہید ہوں، ان کا بیٹا نہ تو قتال کے لیے نکلے تھا اور نہ لڑتے ہوئے مارے گئے تھے، نیز ان کی والدہ کو تردّد اس لیے بھی ہوا کہ جب تک رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف سے اطلاع نہ ملے اس کے جنتی ہونے یا نہ ہونے کے متعلق یقین سے نہیں کہا جاسکتا۔ اس لیے اس نے دریافت کیا کہ اگر وہ جنتی ہو تو صبر کروں اور اگر وہ جنت میں نہیں تو رو رو کر اس کے ساتھ اپنی محبت اور تعلق کااظہار کروں۔ اس سے ان کی مراد نوحہ کرنا نہیں کیونکہ نوحہ تو حرام ہے۔ اور اگر بالفرض ان کی مراد نوحہ کرنا ہی ہو تو اس کا جواب یہ ہوگا کہ یہ واقعہ تو غزوۂ بدر کا ہے جبکہ نوحہ کی تحریم غزوۂ احد کے بعد ہوئی تھی۔ واللہ اعلم۔