Blog
Books
Search Hadith

سیدنا عبداللہ بن انیس جہنی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا تذکرہ

۔ (۱۱۷۷۰)۔ عَنِ ابْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أُنَیْسٍ، عَنِ أَبِیہِ، قَالَ: دَعَانِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((إِنَّہُ قَدْ بَلَغَنِی أَنَّ خَالِدَ بْنَ سُفْیَانَ بْنِ نُبَیْحٍ یَجْمَعُ لِی النَّاسَ لِیَغْزُوَنِی، وَہُوَ بِعُرَنَۃَ فَأْتِہِ فَاقْتُلْہُ۔)) قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ انْعَتْہُ لِی حَتّٰی أَعْرِفَہُ، قَالَ: ((إِذَا رَأَیْتَہُ وَجَدْتَ لَہُ أُقْشَعْرِیَرَۃً۔)) قَالَ: فَخَرَجْتُ مُتَوَشِّحًا بِسَیْفِی حَتّٰی وَقَعْتُ عَلَیْہِ، وَہُوَ بِعُرَنَۃَ مَعَ ظُعُنٍ یَرْتَادُ لَہُنَّ مَنْزِلًا وَحِینَ کَانَ وَقْتُ الْعَصْرِ، فَلَمَّا رَأَیْتُہُ وَجَدْتُ مَا وَصَفَ لِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْ الْأُقْشَعْرِیرَۃِ، فَأَقْبَلْتُ نَحْوَہُ وَخَشِیتُ أَنْ یَکُونَ بَیْنِی وَبَیْنَہُ مُحَاوَلَۃٌ تَشْغَلُنِی عَنِ الصَّلَاۃِ، فَصَلَّیْتُ وَأَنَا أَمْشِی نَحْوَہُ أُومِیُٔ بِرَأْسِی الرُّکُوعَ وَالسُّجُودَ، فَلَمَّا انْتَہَیْتُ إِلَیْہِ قَالَ: مَنِ الرَّجُلُ؟ قُلْتُ: رَجُلٌ مِنْ الْعَرَبِ، سَمِعَ بِکَ وَبِجَمْعِکَ لِہٰذَا الرَّجُلِ فَجَائَ کَ لِہٰذَا، قَالَ: أَجَلْ أَنَا فِی ذٰلِکَ، قَالَ: فَمَشَیْتُ مَعَہُ شَیْئًا حَتّٰی إِذَا أَمْکَنَنِی حَمَلْتُ عَلَیْہِ السَّیْفَ حَتَّی قَتَلْتُہُ، ثُمَّ خَرَجْتُ وَتَرَکْتُ ظَعَائِنَہُ مُکِبَّاتٍ عَلَیْہِ، فَلَمَّا قَدِمْتُ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَرَآنِی فَقَالَ: ((أَفْلَحَ الْوَجْہُ؟)) قَالَ: قُلْتُ: قَتَلْتُہُ یَا رَسُولَ اللّٰہِ!، قَالَ: ((صَدَقْتَ۔)) قَالَ: ثُمَّ قَامَ مَعِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَدَخَلَ فِی بَیْتِہِ فَأَعْطَانِیْ عَصًا، فَقَالَ: ((أَمْسِکْ ہٰذِہِ عِنْدَکَ یَا عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ أُنَیْسٍ۔)) قَالَ: فَخَرَجْتُ بِہَا عَلَی النَّاسِ، فَقَالُوْا: مَا ہٰذِہِ الْعَصَا؟ قَالَ: قُلْتُ: أَعْطَانِیہَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَمَرَنِی أَنْ أُمْسِکَہَا، قَالُوْا: أَوَلَا تَرْجِعُ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَتَسْأَلَہُ عَنْ ذٰلِکَ؟ قَالَ: فَرَجَعْتُ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! لِمَ أَعْطَیْتَنِی ہٰذِہِ الْعَصَا؟ قَالَ: ((آیَۃٌ بَیْنِی وَبَیْنَکَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، إِنَّ أَقَلَّ النَّاسِ الْمُتَخَصِّرُونَ یَوْمَئِذٍ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔)) فَقَرَنَہَا عَبْدُ اللّٰہِ بِسَیْفِہِ فَلَمْ تَزَلْ مَعَہُ حَتَّی إِذَا مَاتَ أَمَرَ بِہَا فَصُبَّتْ مَعَہُ فِی کَفَنِہِ ثُمَّ دُفِنَا جَمِیعًاً۔ (مسند احمد: ۱۶۱۴۳)

سیدنا عبداللہ بن انیس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے بلوا کر فرمایا: مجھے اطلاع ملی ہے کہ خالد بن سفیان بن نبیح مجھ پر حملہ کرنے کے لیے لوگوں کو جمع کر رہا ہے، وہ اس وقت عرنہ وادی میں ہے، تم جا کر اسے قتل کر دو۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ مجھ سے اس کا حلیہ بیان فرمائیں تا کہ میں اسے پہچان سکوں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب تم اسے دیکھو گے تو تم پر کپکپی طاری ہو جائے گی۔ پس میں نے اپنی تلوار لٹکائی اور چل پڑا، جب میں عرنہ میں اس کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ اس کے ساتھ عورتیں بھی تھیں اور وہ ان کے لیے جگہ تیار کر رہا تھا، یہ عصر کا وقت تھا۔ جب میں نے اسے دیکھا تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بیان کے مطابق مجھ پر کپکپی طاری ہو گئی، میں اس کی طرف بڑھا، مجھے اندیشہ ہوا کہ ممکن ہے کہ اس کے اور میرے درمیان لڑائی شروع ہو جائے اور میں نماز نہ پڑھ سکوں، اس لیے میں نے اس کی طرف چلتے چلتے نماز پڑھی لی اور اشارے سے رکوع و سجود کر لیے، جب میں اس کے پاس پہنچا تو اس نے پوچھا: تم کون ہو؟ میں نے کہا: میں ایک عرب ہوں، سنا ہے کہ تم اس یعنی محمد( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کے مقابلے کے لیے لشکر جمع کر رہے ہو، میں بھی اسی مقصد کے لیے آیا ہوں۔ اس نے کہا: ہا ںہاں اسی مشن پر ہوں۔ میں کچھ دور تک اس کے ساتھ ساتھ چلا، جب مجھے موقعہ ملا تو میں نے اس پر تلوار سے وار کر کے اسے قتل کر دیا اور وہاں سے نکل آیا، میں نے اس کی عورتوں کو اس حال میں وہاں چھوڑا کہ وہ اس پر جھکی ہوئی تھیں۔ جب میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس واپس آیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے دیکھ کر فرمایا: چہرہ کامیاب ہو گیا ہے۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے اسے قتل کر دیا ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بالکل تم ٹھیک کہتے ہو۔ اس کے بعد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے ساتھ اٹھ کر چلے اور اپنے گھر تشریف لے گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے ایک لاٹھی عنایت کی اور فرمایا: عبدالرحمن بن انیس! اسے اپنے پاس محفوظ رکھنا۔ میں وہ لاٹھی لے کر باہر لوگوں میں آیا۔ انہوںنے پوچھا: یہ کیسی لاٹھی ہے؟ میں نے بتلایا کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے یہ لاٹھی عنایت کی ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ میں اسے محفوظ رکھوں۔ انہوںنے کہا: کیا تم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس واپس جا کر آپ سے اس کے بارے میں مزید وضاحت نہیں کرا لیتے؟ پس میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں دوبارہ گیا اور میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ! آپ نے یہ لاٹھی مجھے کس مقصد کے لیے دی ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن یہ لاٹھی میرے اور تمہارے درمیان نشانی ہوگی، قیامت کے دن بہت کم لوگ ایسے ہوں گے جن کے پاس ٹیک لگانے کے لیے عصا وغیر ہ ہوگا۔ پس سیدنا عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اس عصا کو اپنی تلوار کے ساتھ باندھ لیا اور وہ ہمیشہ ان کے پاس رہا، یہاں تک کہ جب ان کا انتقال ہوا تو اس عصا کو بھی ان کے کفن کے ساتھ رکھ کر دونوں کو دفن کر دیا گیا۔
Haidth Number: 11770
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۱۷۷۰) تخریج: رجالہ ثقات، لکن عبد اللہ بن عبد اللہ بن انیس لم یذکروا فیہ جرحا ولا تعدیلا اخرجہ ابویعلی: ۹۰۵، وابن خزیمۃ: ۹۸۳، وابن حبان: ۷۱۶۰، وابوداود:۱۲۴۹ مختصرا (انظر: ۱۶۰۴۷)

Wazahat

Not Available