Blog
Books
Search Hadith

سیدنا عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا تذکرہ اور ان کے قبول اسلام کا واقعہ

۔ (۱۱۸۶۹)۔ أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمٰنِ بْنَ شِمَاسَۃَ حَدَّثَہُ قَالَ: لَمَّا حَضَرَتْ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ الْوَفَاۃُ بَکٰی، فَقَالَ لَہُ ابْنُہُ عَبْدُ اللّٰہِ: لِمَ تَبْکِی أَجَزَعًا عَلَی الْمَوْتِ؟ فَقَالَ: لَا، وَاللّٰہِ! وَلٰکِنْ مِمَّا بَعْدُ، فَقَالَ لَہُ: قَدْ کُنْتَ عَلٰی خَیْرٍ، فَجَعَلَ یُذَکِّرُہُ صُحْبَۃَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَفُتُوحَہُ الشَّامَ، فَقَالَ عَمْرٌو: تَرَکْتَ أَفْضَلَ مِنْ ذٰلِکَ کُلِّہِ شَہَادَۃَ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ إِنِّی کُنْتُ عَلٰی ثَلَاثَۃِ أَطْبَاقٍ لَیْسَ فِیہَا طَبَقٌ إِلَّا قَدْ عَرَفْتُ نَفْسِی فِیہِ، کُنْتُ أَوَّلَ شَیْئٍ کَافِرًا فَکُنْتُ أَشَدَّ النَّاسِ عَلٗی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَلَوْ مِتُّ حِینَئِذٍ وَجَبَتْ لِی النَّارُ، فَلَمَّا بَایَعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کُنْتُ أَشَدَّ النَّاسِ حَیَائً مِنْہُ، فَمَا مَلَأْتُ عَیْنِی مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَلَا رَاجَعْتُہُ فِیمَا أُرِیدُ حَتّٗی لَحِقَ بِاللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ حَیَائً مِنْہُ، فَلَوْ مِتُّ یَوْمَئِذٍ قَالَ النَّاسُ: ہَنِیئًا لِعَمْرٍو أَسْلَمَ وَکَانَ عَلٰی خَیْرٍ فَمَاتَ فَرُجِیَ لَہُ الْجَنَّۃُ، ثُمَّ تَلَبَّسْتُ بَعْدَ ذٰلِکَ بِالسُّلْطَانِ وَأَشْیَائَ فَلَا أَدْرِی عَلَیَّ أَمْ لِی، فَإِذَا مِتُّ فَلَا تَبْکِیَنَّ عَلَیَّ، وَلَا تُتْبِعْنِی مَادِحًا وَلَا نَارًا، وَشُدُّوْا عَلَیَّ إِزَارِی فَإِنِّی مُخَاصِمٌ، وَسُنُّوا عَلَیَّ التُّرَابَ سَنًّا، فَإِنَّ جَنْبِیَ الْأَیْمَنَ لَیْسَ بِأَحَقَّ بِالتُّرَابِ مِنْ جَنْبِی الْأَیْسَرِ، وَلَا تَجْعَلَنَّ فِی قَبْرِی خَشَبَۃً وَلَا حَجَرًا، فَإِذَا وَارَیْتُمُونِیْ فَاقْعُدُوْا عِنْدِی قَدْرَ نَحْرِ جَزُورٍ وَتَقْطِیعِہَا أَسْتَأْنِسْ بِکُمْ۔ (مسند احمد: ۱۷۹۳۳)

عبدالرحمن بن شماسہ سے مروی ہے کہ جب سیدنا عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو ان پر گریہ طاری ہوگیا، ان کے فرزند عبداللہ نے ان سے کہا: آپ کیوں روتے ہیں؟ کیا موت کے ڈر کی وجہ سے؟ انہوںنے کہا: نہیں، اللہ کی قسم موت سے نہیں، بلکہ موت کے بعد والے مراحل کا خوف ہے۔ عبداللہ نے کہا: آپ تو بہت اچھے اچھے اعمال کرتے رہے ہیں، پھر وہ انہیں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی صحبت میں گزارے ہوئے لمحات اور ان کی فتوحات شام یاد کرانے لگے۔ سیدنا عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تم ان سب سے افضل بات تو چھوڑ ہی گئے کہ میں کلمۂ شہادت کا اقرار و اعتراف کر چکا ہوں، میری زندگی کے تین مراحل ہیں اور مجھے ہر مرحلہ میں اپنی ذات کی معرفت حاصل ہے، میں پہلے مرحلے میں کافر تھا اور میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا سخت دشمن تھا، اگر مجھے اسی حال میں موت آجاتی تو مجھ پر جہنم واجب ہوتی ۔ جب میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی تو مجھے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سب سے زیادہ جھجک آتی تھی، میں نے کبھی نظر بھر کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو نہیں دیکھا اور میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے جو کچھ دریافت کرنا چاہتا ہوتا کبھی دوسری مرتبہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے دریافت نہ کرتا، یہاں تک کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اللہ کے ہاں تشریف لے گئے، یہ میری طرف سے آپ کے حیاء کی وجہ تھی، اگر انہی دنوں مجھے موت آجاتی تو لوگ کہتے کہ عمرو کو مبارک ہو، وہ مسلمان ہوا اور اس نے بہترین زندگی بسر کی، اس کے لیے جنت کی امید ہے۔اس کے بعد میں حکمران اور بہت سے معاملات میں مشغول رہا، میں نہیں جانتا کہ وہ امور میرے حق میں ثابت ہوں گے یا میرے خلاف، میں فوت ہو جائوں تو تم میرے اوپر ہرگز گر یہ نہ کرنا اور میرے جنازہ کے ساتھ کسی مدح کرنے والے کو یا آگ لے کر نہ جانا اور میرے اوپر چادر باندھ دینا، کیونکہ اللہ کے فرشتے مجھ سے سخت حساب لیں گے اور تم میرے اوپر اچھی طرح مٹی ڈال دینا ، بے شک میرادایاں پہلو میرے بائیں پہلو سے زیادہ مٹی کا حق دار نہیں۔ اور تم میری قبر پر لکڑییا پتھر نہ رکھنا، جب تم میری تدفین سے فارغ ہو جائو تو تم میری قبر کے پاس اتنی دیر بیٹھے رہنا جتنی دیر میں ایک اونٹ کو نحر کرکے اس کا گوشت تیار کیا جاتا ہے، تاکہ تمہاری موجودگی سے مجھے کچھ انس حاصل ہو۔
Haidth Number: 11869
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۱۸۶۹) تخریج: اخرجہ مسلم: ۱۲۱ (انظر: ۱۷۷۸۰)

Wazahat

Not Available