Blog
Books
Search Hadith

حبشہ کے بادشاہ نجاشیlکا تذکرہ

۔ (۱۲۰۱۵)۔ (عَنْہٗ من طریق اخری) قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((مَاتَ الْیَوْمَ عَبْدٌ لِلّٰہِ صَالِحٌ أَصْحَمَۃُ، فَقُومُوْا فَصَلُّوْا عَلَیْہِ۔)) فَقَامَ فَأَمَّنَا فَصَلّٰی عَلَیْہِ۔ (مسند احمد: ۱۴۴۸۶)

۔ (دوسری سند) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آج اللہ کا ایک بندہ اصحمہ وفات پا گیا ہے، اٹھو اور اس کی نماز جنازہ ادا کرو۔ پس رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اٹھ کر ہماری امامت کرائی اور اس کی نماز جنازہ ادا کی۔
Haidth Number: 12015
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۲۰۱۵) تخریج: انظر الحدیث بالطریق الاول

Wazahat

فوائد:… حبشہ کے حاکم نجاشی کا نام اصحمہ تھا اور وہ مسلمان ہو چکا تھا، البتہ اس کی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ملاقات نہیں ہوئی، اس نے اپنے ملک میں مسلمانوں کی خوب مدد کی اور ان کو امن و سکون سے رہنے کی اجازت دی، اس کی وفات کے دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صحابۂ کرام کو اس کی وفات کی اطلاع دی اور نماز جنازہ ادا کی، بنیادی طور پر یہی واقعہ غائبانہ نماز جنازہ کی مشروعیت کی دلیل ہے۔ یہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا معجزہ تھا کہ حبشہ میں ہونے والی وفات کا اسی دن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو پتہ چل گیا تھا، حبشہ کے بادشاہ کا لقب نجاشی ہوتا تھا۔ حافظ ابن حجر ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌نے کہا: ظاہر بات یہ ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نجاشی کی نماز جنازہ پڑھنے کے لیے جنازہ گاہ یا عید گاہ کی طرف اس لیے گئے تاکہ مسلمانوں کی بڑی تعداد جمع ہو جائے اور یہ بات بھی مشہور ہو جائے کہ اس نے اسلام پر وفات پائی ہے، کیونکہ بعض لوگوں کو اس کے مسلمان ہونے کا علم ہی نہ تھا۔ ابن ابی حاتم نے تفسیر میں اور دارقطنی نے افراد میں یہ روایت نقل کی ہے کہ سیّدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نجاشی کی نماز جنازہ پڑھائی تو کسی صحابی نے کہا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تو حبشہ کے ایک آدمی کی نماز جنازہ پڑھ دی ہے۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی: {وَاِنَّ مِنْ اَھْلِ الْکِتَابِ لَمَنْ یُّؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَمَا أُنْزِلَ اِلَیْکُمْ وَمَا اُنْزِلَ اِلَیْہِمْ خٰشِعِیْنَ لِلّٰہِ لَایَشْتَرُوْنَ بِآیَاتِ اللّٰہِ ثَمَنًا قَلِیْلًا اُولٰٓـئِکَ لَہُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ اِنَّ اللّٰہَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ} (سورۂ آل عمران: ۱۹۹) یعنی: یقینا اہل کتاب میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں اور تمہاری طرف جو اتارا گیا ہے اور ان کی جانب جو نازل ہوا اس پر بھی، اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی آیتوں کو تھوڑی تھوڑی قیمت پر بیچتے بھی نہیں، ان کا بدلہ ان کے رب کے پاس ہے، یقینا اللہ تعالیٰ جلد حساب لینے والا ہے۔ معجم کبیر اور معجم اوسط میں اس کے شواہد بھی موجود ہیں اور مؤخر الذکر کی روایت میں یہ زیادتی بھی ہے کہ یہ اعتراض کرنے والا منافق تھا۔ (فتح الباری: ۳/۲۴۲)