Blog
Books
Search Hadith

(باب اول) اس امر کا بیان کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی زندگی میں کسی کو اپنا خلیفہ نامزد نہیں فرمایا

۔ (۱۲۰۲۶)۔ عَنِ الزُّہْرِیِّ، قَالَ: کَانَ مُحَمَّدُ بْنُ جُبَیْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، یُحَدِّثُ أَنَّہُ بَلَغَ مُعَاوِیَۃَ، وَہُوَ عِنْدَہُ فِی وَفْدٍ مِنْ قُرَیْشٍ، أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ یُحَدِّثُ أَنَّہُ سَیَکُونُ مَلِکٌ مِنْ قَحْطَانَ، فَغَضِبَ مُعَاوِیَۃُ، فَقَامَ فَأَثْنٰی عَلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ بِمَا ہُوَ أَہْلُہُ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ! فَإِنَّہُ بَلَغَنِی أَنَّ رِجَالًا مِنْکُمْ یُحَدِّثُونَ أَحَادِیثَ لَیْسَتْ فِی کِتَابِ اللّٰہِ، وَلَا تُؤْثَرُ عَنْ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، أُولَئِکَ جُہَّالُکُمْ، فَإِیَّاکُمْ وَالْأَمَانِیَّ الَّتِی تُضِلُّ أَہْلَہَا، فَإِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: ((إِنَّ ہٰذَا الْأَمْرَ فِی قُرَیْشٍ، لَا یُنَازِعُہُمْ أَحَدٌ إِلَّا أَکَبَّہُ اللّٰہُ عَلٰی وَجْہِہِ مَا أَقَامُوا الدِّین۔)) (مسند احمد: ۱۶۹۷۷)

امام زہری کہتے ہیں کہ محمد بن جبیر بن مطعم ایک قریشی وفدمیں شریک سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس تھا، انھوں نے بیان کیا کہ معاویہ کو یہ بات پہنچی کہ سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے یہ حدیث بیان کی کہ عنقریب قحطان کا ایک بادشاہ ہو گا، تو معاویہ غصے میں آ گئے، کھڑے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور کہا: مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ بعض لوگ ایسی باتیں بیان کرتے ہیں، جو نہ تو اللہ کی کتاب میں پائی جاتی ہیں اور نہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے منقول ہوتی ہیں۔ یہ لوگ پر لے درجے کے جاہل ہیں۔ اس قسم کی خواہشات سے بچوجو خواہش پرستوں کو گمراہ کر دیتی ہیں۔ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے سنا: یہ (امارت والا) معاملہ قریشیوں میں رہے گا، جب تک وہ دین کو قائم رکھیں گے، ان سے دشمنی کرنے والے کو اللہ تعالیٰ منہ کے بل گرادے گا۔
Haidth Number: 12026
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۲۰۲۶) تخریج: أخرجہ البخاری: ۳۵۰۰، ۷۱۳۹ (انظر: ۱۶۸۵۲)

Wazahat

فوائد:… امام البانی ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ رقمطراز ہیں: اس حدیث کے الفاظ مَا أقَامُوْا الدِّیْنَ (جب تک وہ دین کو قائم رکھیں گے) سے معلوم ہوتا ہے کہ جب تک وہ دین کو محفوظ رکھیں گے، ان کی امارت برقرار رہے گی۔ اس کا مفہومِ مخالف یہ ہوا کہ اگر انھوں نے دین کو تحفظ فراہم نہ کیا، تو خلافت ان سے چھن جائے گی۔ حافظ ابن حجر (فتح الباری: ۱۳/۱۱۷) میں اس موضوع پر دلالت کرنے والی دوسری احادیث کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں: تمام احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ بقائے امارت کے لیے قریشیوں کو جن جن امور سے متنبہ کیا گیا تھا، جب انھوں نے ان کی پروا نہ کی تو خلافت کی باگ ڈور ان کے قابو میں نہ رہی۔ یہاں سے رسوائی اور معاملات کے فاسد ہو جانے کی ابتدا ہوئی، یہ بنو عباس کے عہدِ امارت کے شروع شروع کی بات ہے۔ جب مزید بگاڑ پیدا ہوا کہ تو ان کے غلام ان پر غالب آگئے، جو ان کو اذیتیں پہنچانے سے بھی دریغ نہ کرتے تھے۔ اس وقت خلفاء و امراء کی وقعت اس بچے سے زیادہ نہ تھی، جس پر پابندی لگا دی جاتی ہے، انھوں نے لذتوں پر قناعت کر لی تھی اور دوسرے لوگ امورِ سلطنت چلا رہے تھے۔ اس وقت معاملہ سنگینی اختیار کر گیا، جب آذر بائیجان کے قرب و جوار میں بسنے والے دیلمی لوگ قابض ہو گئے، انھوں نے خلیفہ کے لیے اس کے اختیارات کا دائرہ اتنا تنگ کر دیا کہ اس کے لیے سوائے خطبہ دینے کے کچھ نہ بچا اور زبردستی قبضہ کرنے والوں نے مختلف صوبوں میں شاہی حکومت کو تقسیم کر لیا، پھر وہ گروہ در گروہ غالب آتے گئے، حتی کہ خلفاء سے تمام امورِ سلطنت چھین لیے گئے اور بعض علاقوں میں تو رسمی اسمِ خلافت کے علاوہ کچھ نہ بچا۔ میں (البانی) کہتا ہوں: آج بھی امت ِ مسلمہ کے حالات اسی طرح بدتر ہیں، بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ سنگین ہیں، کیونکہ آج سرے سے مسلمانوںکا کوئی خلیفہ نہیں ہے، نہ اسمی طور پر اور نہ رسمی طور پر۔ اکثر اسلامی ممالک پر یہودی، کیمونسٹ اور منافق غلبہ پا چکے ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کو شرعی امور میں باہمی مشاورت کی اور حکام کو متحد ہو کر شرعی احکام کے مطابق ایک سلطنت تشکیل دینے کی توفیق سے نوازے، تاکہ یہ دنیا میں عزت اور آخرت میں سعادت پا سکیں۔ اگر ایسے نہ ہوا تو ہم اس آیت کے مصداق بن کر رہ جائیں گے: {اِنَّ اللّٰہَ لَایُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یَغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ} (سورۂ رعد: ۱۱) … کسی قوم کی حالت اللہ تعالیٰ نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اسے نہ بدلیں جو ان کے دلوں میں ہو۔ اس آیت کی تفسیر اس حدیث میں کی گئی ہے: سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((إِذَا تَبَایَعْتُمْ بِالْعِیْنَۃِ، وَأَخَذْتُمْ أَذْنَابَ الْبَقَرِ، وَرَضِیْتُمْ بِالزَّرْعِ، وَتَرَکْتُمُ الْجِھَادَ، سَلَّطَ اللّٰہُ عَلَیْکُمْ ذُلاًّ لَایَنْزِعُہُ حَتّٰی تَرْجِعُوْا إِلٰی دِیْنِکُمْ۔)) (صحیحہ:۱۱)… جب تم بیع عِینہ کرو گے، ہاتھوں میں بیلوں کی دمیں پکڑ لو گے، کھیتی باڑی کرنے پر راضی ہو جاؤ گے اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنا چھوڑ دوگے تو اللہ تعالیٰ تم پر ذلت مسلّط کر دے گا اور اس وقت تک نہیں اٹھائے گا جب تک تم دین کی طرف نہیں لوٹ آؤ گے۔ سو مسلم حاکمو! اور مسلم محکومو! اپنے دین کی طرف پلٹ آؤ۔ (صحیحہ: ۲۸۵۶)