Blog
Books
Search Hadith

(باب اول) اس امر کا بیان کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی زندگی میں کسی کو اپنا خلیفہ نامزد نہیں فرمایا

۔ (۱۲۰۲۷)۔ عن عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: بَیْنَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی قَرِیبٍ مِنْ ثَمَانِینَ رَجُلًا مِنْ قُرَیْشٍ، لَیْسَ فِیہِمْ إِلَّا قُرَشِیٌّ، لَا وَاللّٰہِ! مَا رَأَیْتُ صَفْحَۃَ وُجُوہِ رِجَالٍ قَطُّ أَحْسَنَ مِنْ وُجُوہِہِمْ یَوْمَئِذٍ، فَذَکَرُوْا النِّسَائَ فَتَحَـدَّثُوا فِیہِنَّ، فَتَحَدَّثَ مَعَہُمْ حَتَّی أَحْبَبْتُ أَنْ یَسْکُتَ، قَالَ: ثُمَّ أَتَیْتُہُ فَتَشَہَّدَ، ثُمَّ قَالَ: ((أَمَّا بَعْدُ! یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ! فَإِنَّکُمْ أَہْلُ ہٰذَا الْأَمْرِ مَا لَمْ تَعْصُوا اللّٰہَ، فَإِذَا عَصَیْتُمُوہُ بَعَثَ إِلَیْکُمْ مَنْ یَلْحَاکُمْ کَمَا یُلْحٰی ہٰذَا الْقَضِیبُ۔)) لِقَضِیبٍ فِی یَدِہِ ثُمَّ لَحَا قَضِیبَہُ فَإِذَا ہُوَ أَبْیَضُ یَصْلِدُ۔ (مسند احمد: ۴۳۸۰)

سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم تقریبًا قریش کے اسی (۸۰) آدمی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس بیٹھے تھے، تمام کے تمام قریشی تھے۔ اللہ کی قسم! اُس دن یہ لوگ بہت خوبصورت نظر آ رہے تھے، انھوں نے عورتوں کا ذکر کیا، ان کے بارے میں باتیں کیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بھی ان کے ساتھ گفتگو کرتے رہے (اور اتنا زیادہ کلام کیا کہ) میں نے چاہا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خاموش ہو جائیں۔ پھر میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا، آپ نے خطبۂ شہادت پڑھا اور فرمایا: حمد و صلوۃ کے بعد (میں یہ کہوں گا کہ) قریشیو! تم لوگ اس (امارت) کے مستحق ہو، جب تک اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کرو گے، اگر تم نے نافرمانی کی تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو بھیجے گا جو تمھاری چمڑی ادھیڑ دیں گے، جس طرح اس شاخ (جو آپ کے ہاتھ میں تھی) کا چھلکا اتار لیا جاتا ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی شاخ کا چھلکا اتارا، (جس کی وجہ سے) وہ اچانک سفید اور سخت نظر آنے لگی۔
Haidth Number: 12027
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۲۰۲۷) تخریج: صحیح، قالہ الالبانی، أخرجہ ابویعلی: ۵۰۲۴ (انظر: ۴۳۸۰)

Wazahat

فوائد:…امام البانی ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ رقمطراز ہیں: یہ حدیث نبوت کی ( صداقت و حقانیت کی) نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ کئی صدیوں تک قریشیوں کی خلافت جاری رہی، بالآخر اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں اور خواہش پرستیوں کی وجہ سے ان کی خلافت و ملوکیت دم توڑ گئی، اللہ تعالیٰ نے ان پر عجمیوں کو مسلط کر دیا اور مسلمان ذلیل ہو کر رہ گئے۔ اب اگر مسلمان مملکتِ اسلامیہ کے حصول کے لیے صدقِ دل سے متمنی اور کوشاں ہیں تو ان پر فرض ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کریں، اپنے دین کی طرف متوجہ ہوں اور شرعی احکام کی پیروی کریں۔ غور کریں کہ علم حدیث کی کتب میں وہ شروط و قیود مذکور ہیںجن کی بنا پر قریش میں خلافت کو بقا ملنی تھی، لیکن انھوں نے وہ شرطیں پوری نہیں کیں، اس لیے وہ محکوم بن گئے۔ اب ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی خواہشات اور اپنے آباء و اجداد کی تہذیبوں کو ترجیح نہ دیں، وگرنہ ہمیں پھر محکوم ہی رہنا پڑے گا۔ اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا: {اِنَّ اللّٰہَ لَایُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ} (سورۂ رعد: ۱۱) … کسی قوم کی حالت اللہ تعالیٰ نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اسے نہ بدلیں جو ان کے دلوں میں ہو۔ بہرحال حسنِ عاقبت تو پرہیز گاروں کے لیے ہی ہے۔ (صحیحہ: ۱۵۵۲)