Blog
Books
Search Hadith

فصل: قریشی خلفاء کی تعداد

۔ (۱۲۰۳۶)۔ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ: سَأَلْتُ جَابِرَ بْنَ سَمُرَۃَ عَنْ حَدِیثِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَا یَزَالُ الدِّینُ قَائِمًا حَتّٰییَکُونَ اثْنَا عَشَرَ خَلِیفَۃً مِنْ قُرَیْشٍ، ثُمَّ یَخْرُجُ کَذَّابُونَ بَیْنَیَدَیِ السَّاعَۃِ، ثُمَّ تَخْرُجُ عِصَابَۃٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ، فَیَسْتَخْرِجُونَ کَنْزَ الْأَبْیَضِ کِسْرٰی وَآلِ کِسْرٰی، وَإِذَا أَعْطَی اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی أَحَدَکُمْ خَیْرًا فَلْیَبْدَأْ بِنَفْسِہِ وَأَہْلِہِ، وَأَنَا فَرَطُکُمْ عَلَیالْحَوْضِ۔)) (مسند احمد: ۲۱۰۸۶)

عامر بن سعد کہتے ہیں: میں نے سیدنا جابر بن سمرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ایک حدیث کے بارے میں پوچھا، انہوں نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ دین غالب رہے گا، یہاں تک کہ قریش کے بارہ خلفاء ہوں گے، ان کے بعد قیامت سے قبل کچھ جھوٹے لوگ پیدا ہوں گے، ان کے بعد مسلمانوں کی ایک جماعت آئے گی، وہ کسری اور آل کسری کے سفید خزانوں کو باہر نکال لائیں گے، جب اللہ تعالیٰ تم میں سے کسی کو مال و برکت سے نوازے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے آپ پر اور پھر اپنے اہل وعیال پر خرچ کرنے سے ابتدا کرے اور میںحوض کوثر پر تمہارا پیش رو ہوں گا۔
Haidth Number: 12036
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۲۰۳۶) تخریج: حدیث صحیح وانظر الحدیث السابق أخرجہ مسلم: ۱۸۲۲ (انظر: ۲۰۸۰۵)

Wazahat

فوائد:…اس حدیث کی وضاحت میں مختلف قسم کی آراء پیش کی گئی ہیں۔ کیونکہ کئی صدیوں تک قریشیوں کی خلافت جاری رہی، کئی خلفاء اور امراء گزرے۔ اب اس حدیث میں مذکورہ بارہ خلفاء سے مراد کون لو گ ہیں؟ ہر ایک نے اس حدیث کے مختلف طرق سے ثابت ہونے والے متون اور تاریخ پر نگاہ رکھ کر اپنا اپنا نظریہ پیش کیا، کچھ تفصیل یہ ہے: ۱۔ اس حدیث کا مصداق یہ ہے کہ زمین کے مختلف خطوں میں یہ بارہ خلفاء ایک وقت میں ہوں گے اور پانچویں صدی ہجری میں عملی طور پر ایسے ہوا۔ اندلس میں پانچ افراد، جن میں ہر کوئی خلیفہ ہونے کا دعوی کرتا تھا، اُدھر مصر کا خلیفہ، بغداد میں عباسیوں کا خلیفہ اور اس کے ساتھ مختلف علاقوں میں علویوں اور خوارج کے خلفاء تھے۔ ۲۔ اس سے مراد بنوامیہ کے بارہ خلفاء ہیں، بشرطیکہ ان میں صحابہ کو شمار نہ کیا جائے، اس اعتبار سے پہلا خلیفہ یزید بن معاویہ اور آخری مروان حمار تھا، یہ کل تیرہ بنتے ہیں۔ اگر مروان بن حکم کا شمار اس بنا پر نہ کیا جائے کہ ان کی صحبت میں اختلاف ہے یا وہ زبردستی قابض ہو گئے تھے تو یہ کل بارہ بنتے ہیں۔ بنوامیہ کے دور حکومت کے بعد فتنوں اور لڑائیوں کا دور شروع ہو گیا تھا۔ ۳۔ یہ بارہ خلفاء امام مہدی کے بعد ہوں گے، جو آخری زمانے میں عیسی علیہ السلام سے پہلے تشریف لائیں گے۔ ۴۔ اس سے مرادوہ درج ذ یل بارہ خلفاء ہیں جن پر لوگ متحد ہو گئے تھے: (۱) سیدنا ابوبکر صدیق ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ (۲) سیدنا عمر فاروق ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ (۳) سیدنا عثمان بن عفان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ (۴) سیدنا علی بن ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ (۵) سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ (۶) یزید بن معاویہ(۷) عبد الملک بن مروان(۸)ولید بن عبد الملک (۹) سلیمان بن عبد الملک (۱۰) یزید بن عبد الملک(۱۱) ہشام بن عبد الملک (۱۲)ولید بن یزید بن عبد الملک، سلیمان بن عبد الملک اور یزید بن عبد الملک کے درمیان عمر بن عبد العزیز کا دور تھا۔ ۵۔ سیدنا ابو بکر صدیق ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے عمر بن عبد العزیز تک کل چودہ خلفاء گزرے، ان میں دو کی نہ ولایت درست تھی اور نہ مدّت لمبی تھی اور وہ معاویہ بن یزید اور مروان بن حکم ہیں۔ ان میں سے اکثر خلفاء اپنے عہدِ خلافت میں ہر اعتبارسے تقریبا منظم رہے، اگرچہ قابل جرح امور بھی منظر عام پر آئے، لیکن وہ مثبت پہلووؤں کی بہ نسبت شاذو نادرتھے۔ (فتح الباری: ۷۲۲۲ کے تحت)