Blog
Books
Search Hadith

فصل: قریشی خلفاء کی تعداد

۔ (۱۲۰۳۸)۔ عَنْ سَفِینَۃَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((الْخِلَافَۃُ ثَلَاثُونَ عَامًا، ثُمَّ یَکُونُ بَعْدَ ذٰلِکَ الْمُلْکُ۔)) قَالَ سَفِینَۃُ: أَمْسِکْ خِلَافَۃَ أَبِی بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ سَنَتَیْنِ، وَخِلَافَۃَ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَشْرَ سِنِینَ، وَخِلَافَۃَ عُثْمَانَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ اثْنَیْ عَشْرَ سَنَۃً، وَخِلَافَۃَ عَلِیٍّ سِتَّ سِنِینَ ۔ (مسند احمد: ۲۲۲۶۴)

سیدنا سفینہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: خلافت تیس برس تک رہے گی، بعد ازاں ملوکیت آجائے گی۔ سفینہ نے کہا، ذرا شمار کرو، دو سال سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خلافت، دس سال سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خلافت، بارہ سال سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خلافت اور چھ سال سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خلافت تھی۔
Haidth Number: 12038
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۲۰۳۸) تخریج: اسنادہ حسن، اخرجہ ابوداود: ۴۶۴۷ (انظر: ۲۱۹۱۹)

Wazahat

فوائد:… خلفائے راشدین کے ادوار خلافت کی تفصیل یہ ہے: سیدنا ابو بکر صدیق ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ : دو سال، تین ماہ، دس دن سیدنا عمر فاروق ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ : دس سال، چھ ماہ، آٹھ دن سیدنا عثمان غنی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ : گیارہ سال، گیارہ ماہ، نو دن سیدنا علی مرتضی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ : چار سال، نو ماہ، سات دن سیدنا حسن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ : چھ ماہ سنن ابی داود کی روایت کے الفاظ یہ ہیں: ((خِلَافَۃُ النُّـبُوَّۃِ ثَـلَاثُوْنَ سَنَۃً ثُمَّ یُؤْتِی اللّٰہُ الْمُلْکَ اَوْ مَلَّکَہُ مَنْ یَّشَائُ۔)) … تیس سال تک نبوت والی خلافت رہے گی، پھر اللہ تعالیٰ جس کو چاہے گا، اپنی بادشاہت عطا کر دے گا۔ ملا علی قاری نے کہا: اس حدیث کا یہ معنی معلوم ہوتا ہے کہ تیس سال تک خلافت ِ کاملہ جاری رہے گی، اس میں مخالفت کا اور حق سے دور ہونے کا عنصر نہیں ہو گا، لیکن اس کے بعد کبھی یہ وصف مثبت نظر آئے گا اور کبھی منفی۔ (مرقاۃ: ۹/ ۲۷۱) یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ بادشاہت فی نفسہ کوئی مذموم چیز نہیں ہے، کہ اس حدیث کا معنی یہ کیا جائے کہ تیس سالہ دورِ خلافت کے بعد والی امارت و ملوکیت پر طعن و تشنیع شروع کر دیا جائے۔ اسلام میں وہ بادشاہت مذموم ہے، جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے احکام سے عملاً یا علماً اور عملاً ناآشنا ہو۔ ایسے بادشاہ کو امیر المومنین کا لقب دیا جائے یا خلیفۃ المسلمین کا، اس سے اس کی امارت یا خلافت کو کوئی سہارا نہیں ملے گا۔ اسلام میں القاب کا اعتبار نہیں ہے، عمل اور حقیقت کو معتبر سمجھا جاتا ہے۔ اگر کسی بادشاہ کا مقصد دین حق کی اشاعت اور اس کی سر بلندی، اسلامی تہذیب و تمدن کا نفاذ اور اس کا فروغ ہو، تو وہ قابل تعریف ہو گا، اگرچہ وہ باپ کے مر جانے کے بعد وراثۃً تخت نشین ہوا ہو۔ آج کل لوگوں نے نفس بادشاہت کو خلافت و نبوت کے منافی تصور کر رکھا ہے، جس کے لیے کوئی شرعی بنیاد نہیں۔ علامہ ابن خلدون لکھتے ہیں: وہ بادشاہت، جو تصورِ خلافت کے منافی اور مخالف ہے، وہ جبروتیت (اور سرکشی) ہے، جسے سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اس وقت کسریت سے تعبیر کیا تھا، جب اس کے کچھ ظاہری آثار سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ میں انہوں نے دیکھے۔ لیکن وہ بادشاہت جس میں قہر و غلبہ، عصبیت اور شکوہ نہ ہو، وہ خلافت کے منافی ہے نہ نبوت کے۔ سلیمان علیہ السلام اور داود علیہ السلام دونوں نبی بھی تھے اور بادشاہ بھی تھے، لیکن اس کے باوجود وہ دونوں اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور دنیوی امور میں راہِ مستقیم پر قائم رہے۔ معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی بادشاہت بھی ایسے ہی تھی، ان کا مقصد محض بادشاہت کا حصول یا دنیاوی عزّ و جاہ میں اضافہ نہ تھا۔ جب مسلمان اکثر حکومتوں پر غالب آ گئے تو طبعی عصبیت کی بنا پر ان کے دل میں یہ جذبہ پیدا ہوا، بہرحال وہ مسلمانوں کے خلیفہ تھے، انھوں نے مسلم قوم کی اسی طرح رہنمائی کی، جس طرح بادشاہ اپنی اقوام کی اس وقت کرتے ہیں، جب قومی عصبیت اور شاہی مزاج اس کا متقاضی ہوتا ہے۔ اسی طرح دیندار خلفاء کا حال ہے جو سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے بعد ہوئے۔ انہیں بھی جب ضرورت لاحق ہوئی شاہانہ طور طریقے استعمال کیے۔ ان خلفاء کے حالات کا مطالعہ کرتے وقت اس بات کی ضرورت ہے کہ صرف صحیح روایات پر اعتماد کیا جائے نہ کہ کمزور روایات پر۔ جس خلیفہ کے افعال ٹھیک ہوں وہ خلیفہ ٔ رسول ہے اور جو اس معیار پر پورا نہ اترے وہ دنیا کے عام بادشاہوں کی طرح بادشاہ ہے، اگرچہ اس کو خلیفہ ہی کیوں نہ کہا جاتا ہو۔ (تاریخ ابن خلدون: ۲/ ۱۴۲) حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں اصل مطاع اور قانون ساز اللہ تعالیٰ ہے، خلیفہ کا منصب نہ قانون سازی ہے اور نہ اس کی ہر بات واجب الاطاعت ہے، وہ اللہ کے حکم کا پابند اور اس کو نافذ کرنے والا ہے اور اس کی اطاعت بھی اسی شرط کے ساتھ مشروط ہے۔ حکمرانی کا یہ تصور پہلے چار خلفاء کے دل و دماغ میں جس شدت کے ساتھ جاگزیں تھا، بعد میں یہ تصور بتدریج دھندلاتا چلا گیا، اسی کیفیت کو بادشاہت کے نام سے تعبیر کیا گیا، ورنہ فی الواقع بادشاہت اسلام میں مذموم نہیں ہے۔ سیدنا عمر بن عبد العزیز اصطلاحی طور پر بادشاہ ہی تھے، یعنی طریقہ ٔ ولی عہدی سے خلیفہ بنے تھے، لیکن اپنے طرزِ حکمرانی کی بنا پر اپنا نیک نام چھوڑ گئے۔ اسی طرح اسلامی تاریخ میں اور بھی متعدد بادشاہ ایسے گزرے ہیں، جن کے روشن کارناموں سے تاریخ اسلام کے اوراق مزین اور جن کی شخصیتیں تمام مسلمانوں کی نظروںمیں محمود و مستحسن ہیں۔ اسی طرح سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بھی اگر کوئی شخص بادشاہ کہنے پر مصر ہے تو بصد شوق کہے۔ ان جیسا عادل، خدا ترس اور عظیم کارنامے سرانجام دینے والا بادشاہ دنیا کی پوری تاریخ پیش نہیں کر سکتی۔ لیکن اگر کوئی شخص اس نقطۂ نظر سے ان کو بادشاہ کہے کہ وہ اسلامی طرزِ حکومت سے دور ہٹ گئے تھے، ان کے دورِ حکومت کا نظام اسلامی نہیں تھا اور ان کو اخلاق و شریعت کی حدود پھاند جانے میںکوئی باک نہ تھا، جس طرح کہ مولانا مودودی نے خلافت و ملوکیت میں یہی کچھ باور کرانے کی کوشش کی ہے، تو یہ سراسر ظلم،ناانصافی، غیر متعدل طرزِ فکر اور یکسر امرِ واقعہ کے خلاف ہے۔ اس موضوع پر حافظ صلاح الدین یوسف کی کتاب خلافت و ملوکیت کی تاریخی و شرعی حیثیت کا مطالعہ بہت مفید رہے گا۔ ان شاء اللہ۔