Blog
Books
Search Hadith

فصل: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے فرمان تم میں سے ہر کوئی نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے پوچھ گچھ ہو گی کی وضاحت

۔ (۱۲۰۵۱)۔ عَنِ الْحَسَنِ أَنَّ مَعْقِلَ بْنَ یَسَارٍ اشْتَکٰی، فَدَخَلَ عَلَیْہِ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ زِیَادٍیَعْنِییَعُودُہُ، فَقَالَ: أَمَا إِنِّی أُحَدِّثُکَ حَدِیثًا لَمْ أَکُنْ حَدَّثْتُکَ بِہِ، إِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، أَوْ إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((لَا یَسْتَرْعِی اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی عَبْدًا رَعِیَّۃً، فَیَمُوتُیَوْمَیَمُوتُ وَہُوَ لَہَا غَاشٌّ إِلَّا حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ۔)) وَفِیْ رِوَایَۃٍ: ((فَھُوَ فِی النَّارِ۔)) (مسند احمد: ۲۰۵۵۷)

حسن سے روایت ہے کہ سیدنا معقل بن یسار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیمار پڑ گئے اورعبید اللہ بن زیاد ان کی تیماداری کے لیے آئے، سیدنا معقل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں تم کو ایک حدیث سناتا ہوں، جو میں نے پہلے نہیں سنائی تھی، میںنے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ اپنے کسی بند ے کو رعایا پر حکمرانی عطا فرمائے، لیکن اگر وہ حکمران ا س حال میں مرے کہ وہ اپنی رعایا کو دھوکا دیتا تھا تو اللہ تعالیٰ ا س پر جنت کو حرام کردیتا ہے۔ ایک روایت میں ہے: وہ جہنمی ہے۔
Haidth Number: 12051
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۲۰۵۱) تخریج: اخرجہ البخاری: ۷۱۵۰، ومسلم: ۱۴۲ (انظر: ۲۰۲۹۱)

Wazahat

فوائد:…مساوات کے ساتھ رعایا کے حقوق پورے کرنا انتہائی کٹھن مرحلہ ہے، سیدنا ابوامامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((مَا مِنْ رَجُلٍ یَلِیْ اَمْرَ عَشَرَۃٍ فَمَا فَوْقَ ذٰلِکَ اِلاَّ اَتَاہٗ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ مَغْلُوْلًا یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یَدُہُ اِلٰی عُنُقِہٖ: فَکَّہٗ بِرُّہٗ اَوْ اَوْبَقَہٗ اِثْمُہٗ: اَوَّلُھَا مَـلَامَۃٌ، وَ اَوْسَطُھَا نَدَامَۃٌ، وَآخِرُھَا خِزْیٌ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔)) … جو آدمی دس یا زیادہ افراد کا والی بنا، اللہ تعالیٰ اسے روزِ قیامت اس حال میں لائے گا کہ اس کا ہاتھ اس کی گردن کے ساتھ جکڑا ہوا ہو گا، پھر اس کی نیکی اس کو آزاد کر دے گی یا اس کا گناہ اس کو ہلاک کر دے گا، اس (امارت) کے شروع میں ملامت، درمیان میں ندامت اور آخر میں (روزِ قیامت) رسوائی ملتی ہے۔ (مسند احمد: ۵/ ۲۶۷) بہرحال ذمہ داریاں سنبھالنے والے اللہ تعالیٰ کے ہاں مسئول ہیں اور کامیاب وہی ہے جو لوگوں کے آرام کو اپنے سکون پر ترجیح دیتا ہے۔ حکمرانوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ حکمرانی عیاشی اور مال و دولت جمع کرنے کا ذریعہ نہیں ہے، بلکہ یہ اتنی بڑی ذمہ داری ہے، کہ اس کو ادا کر دینے والوں کی تعداد بہت کم ہو گی۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ جیسے عظیم حکمران کے سوانح عمری سے حکمرانی کی ذمہ داریوں کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔