Blog
Books
Search Hadith

فصل: اس حکمران کی وعید کا بیان جو رعایاکے امور کے سامنے رکاوٹیں ڈالتا ہے

۔ (۱۲۰۵۵)۔ عَنْ عَلِیِّ بْنِ الْحَکَمِ قَالَ: حَدَّثَنِی أَبُو حَسَنٍ أَنَّ عَمْرَو بْنَ مُرَّۃَ قَالَ لِمُعَاوِیَۃَ: یَا مُعَاوِیَۃُ! إِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((مَا مِنْ إِمَامٍ أَوْ وَالٍ یُغْلِقُ بَابَہُ دُونَ ذَوِی الْحَاجَۃِ وَالْخَلَّۃِ وَالْمَسْکَنَۃِ إِلَّا أَغْلَقَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ أَبْوَابَ السَّمَائِ، دُونَ حَاجَتِہِ وَخَلَّتِہِ وَمَسْکَنَتِہِ۔)) قَالَ: فَجَعَلَ مُعَاوِیَۃُ رَجُلًا عَلَی حَوَائِجِ النَّاسِ۔ (مسند احمد: ۱۸۱۹۶)

ابو الحسن سے روایت ہے کہ عمروبن مرہ نے سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: اے معاویہ! میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو حاکم ضرورت مندوں اور مسکینوں کے سامنے اپنا دروازہ بند کر دیتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی ضرورت، حاجت اورمسکینی کے وقت آسمان کے دروازے بند کر دیتا ہے۔ اس کے بعد سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ایک شخص مقرر کر دیا، جو لوگوں کی ضرورتوں کا خیال رکھتا تھا۔
Haidth Number: 12055
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۲۰۵۵) تخریج: صحیح لغیرہ، اخرجہ الترمذی: ۱۳۳۲(انظر: ۱۸۰۳۳)

Wazahat

فوائد:… یقینا کفر کے لیڈروں کے سامنے مسلم ممالک اور ان کے حکمرانوں کی مرعوبیت کی یہی وجہ ہو گی کہ حاجت مندوں اور مسکینوں کو مسلم عہدیداران کے ہاں جانے کا کوئی حق ہی حاصل نہیں ہوتا، جبکہ انبیاء و رسل کے سردار کی کیفیت درج ذیل تھی: سیدنا ابودردائ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول االلہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے سنا: ((أَبْغُوْنِی الضُعَفَائَ، فَإِنَّمَا تُرْزَقُوْنَ وَتُنْصَرُوْنَ بِضُعَفَائِکُمْ۔)) … ضعفاء کو میرے لیے تلاش کر کے لاؤ،بیشک تم لوگ انہی کمزوروں کی وجہ سے رزق دیے اور مدد کئے جاتے ہو۔ (ابوداود: ۱/۴۰۵،نسائی: ۲/۶۵، ترمذی: ۳/۳۲) شیخ البانی ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ لکھتے ہیں: کمزوروں کی وجہ سے لوگوں کی مدد کی جاتی ہے، یہ تائید و نصرت صالحین کی ذات کی وجہ سے نہیں، بلکہ ان کی دعا اور اخلاص کی وجہ سے ہوتی ہے،جیسا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ جب سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو یہ گمان ہو نے لگا کہ وہ اپنے سے کم مال والے صحابہ پر فضیلت رکھتے ہیں، تونبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((اِنَّمَا یَنْصُرُ اللّٰہُ ھٰذِہِ الْأُمَّۃِ بِضَعِیْفِھَا: بَدَعْوَتِھِم وَ صَلَاتِھِمْ وإِخلاصھم۔)) … اللہ تعالیٰ اس امت کے کمزور لوگوں کی دعاؤں، نمازوں اور اخلاص کی وجہ سے اس امت کی مدد کرتا ہے۔ (سنن نسائی: ۲/ ۶۵، الفوائد لتمام: ق ۱۰۵/ ۲، الحلیۃ لأبی نعیم: ۵/ ۲۶) اس روایت کی سند شیخین کی شرط پر صحیح ہے، بلکہ مطلوبہ تفسیر کے علاوہ یہ روایت صحیح بخاری میں بھی ہے، اور اسی طرح اس کو امام احمد (۱/ ۱۶۳) نے بھی روایت کیا ہے ۔ (صحیحہ: ۷۷۹) اس حدیث کامعنی یہ ہے کہ ضعیف لوگوں کی عبادات و ادعیہ میں اخلاص زیادہ ہوتا ہے اور ان کو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے میں لذت محسوس ہوتی ہے، کیونکہ ان کے دل دنیا کی محبت اور چاہت سے خالی ہوتے ہیں، ان کا صرف ایک مقصد ہوتا ہے کہ ان کی دعائیں قبول اور ان کے اعمال پاک ہو جائیں۔ امیر اور غریب اور قوی اور ضعیف میں بیان کیا گیا مذکورہ بالا فرق امیر اور قوی لوگوں کے لیے قابل تسلیم نہیں ہے، کیونکہ وہ ان تجربات سے نہیں گزرے اور ان کو سرے سے یہ احساس نہ ہو سکا کہ اِن لوگوں کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیا تعلق ہوتا ہے۔