Blog
Books
Search Hadith

فصل: حکمرانوں کو اس بات سے ڈرانا کہ وہ برے لوگوں کو اپنے خاص مشیر بنائیں اور اس امر کا بیان کہ حکمرانوں کے لیے اللہ کے اموال کس قد ر حلال ہیں

۔ (۱۲۰۵۶)۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَا مِنْ نَبِیٍّ وَلَا وَالٍ إِلَّا وَلَہُ بِطَانَتَانِ، بِطَانَۃٌ تَأْمُرُہُ بِالْمَعْرُوفِ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: وَتَنْہَاہٗعَنِالْمُنْکَرِ)،وَبِطَانَۃٌ لَا تَأْلُوہُ خَبَالًا، وَمَنْ وُقِیَ شَرَّہُمَا فَقَدْ وُقِیَ، وَہُوَ مَعَ الَّتِی تَغْلِبُ عَلَیْہِ مِنْہُمَا))۔ (مسند احمد: ۷۲۳۹)

سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہر نبی اور حاکم کے دو ہم راز ہوتے ہیں، ایک ہم راز اسے نیکی کا حکم دیتا ہے اور برائی سے منع کرتا ہے اور دوسرا اس کی ہلاکت و تباہی کے لیے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتا۔ جو حاکم اس کے شرّ سے بچ گیا، وہ تو محفوظ ہو گیا اور وہ اس کے ساتھ ہوتا ہے جو ان میں سے غالب آجاتا ہے۔
Haidth Number: 12056
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۲۰۵۶) تخریج: اسنادہ صحیح علی شرط الشیخین، اخرجہ النسائی: ۷/ ۱۵۸، والترمذی: ۲۳۶۹ (انظر: ۷۲۳۹)

Wazahat

فوائد:… حافظ ابن حجر نے کہا: سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی درج ذیل حدیث اِس حدیث کے معنی میں ہے: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((مَنْ وَلِیَ مِنْکُمْ عَمَلًا فَارَادَ اللّٰہُ بِہٖ خَیْرًا جَعَلَ لَہٗ وَزِیْرًا صَالِحًا اِنْ نَسِیَ ذَکَرَہٗ وَاِنْ ذَکَرَ اَعَانَہٗ۔)) … جب تم میں سے کوئی کسی کام کا ذمہ دار بنتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ خیر کا ارادہ کرتا ہے تو اسے نیک وزیر عطا کرتا ہے، اگر وہ بھول جائے تو وہ اسے یاد کراتا ہے اور اگر اسے یاد ہو تو وہ اس کی اعانت کرتا ہے۔ ابن التین نے کہا: ممکن ہے کہ دو ہم رازوں سے مراد دو وزیر ہوں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اِن سے مراد فرشتہ اور شیطان ہوں۔ جبکہ کرمانی کا خیال ہے کہ ان سے نفسِ امارہ اور نفسِ مطمئنہ بھی مراد لیے جا سکتے ہیں۔ (فتح الباری: ۱۳/۲۳۶) حافظ ابن حجر نے اس بحث سے پہلے اشہب کا قول نقل کرتے ہوئے کہا: حاکم کو چاہیے کہ لوگوں کے احوال سے آگاہی حاصل کرنے کے لیے بااعتماد، مامون، سمجھدار اور عقلمند لوگوں کی تقرری کرے، کیونکہ جب وہ غیر معتمد لوگوں کو معتبر سمجھنا شروع کرتا ہے، اس وقت تباہیاں حاکم کا مقدر بن جاتی ہیں۔ (فتح الباری: ۱۳/۲۳۶) درج ذیل حدیث سے بھی اس موضوع کی خوب توضیح ہو رہی ہے: سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((اِذَا اَرَادَ اللّٰہُ بِالْاَمِیْرِ خَیْرًا جَعَلَ لَہٗ وَزِیْرَ صِدْقٍ: اِنْ نَسِیَ ذَکَّرَہٗ وَاِنْ ذَکَرَ اَعَانَہٗ، وَاِذَا اَرَادَ اللّٰہٗ بِہٖ غَیْرَ ذَالِکَ جَعَلَ لَہٗ وَزِیْرَ سُوْئٍ: اِنْ نَسِیَ لَمْ یُذَکِّرْہُ وَاِنْ ذَکَرَ لَمْ یُعِنْہٗ۔)) … جب اللہ تعالیٰ کسی امیر کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتے ہیں تو اسے سچا وزیر عطا کر دیتے ہیں، جب وہ بھولتا ہے تو وہ اسے یاد کراتا ہے اور اگر اسے یاد ہوتا ہے تو وہ اس کی معاونت کرتا ہے۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ کسی امیر کے ساتھ دوسرا ارادہ کرتے ہیں تو اسے برا وزیر دے دیتے ہیں، جب وہ بھول جاتا ہے تو وہ اسے یاد نہیں کراتا اور اگر اسے یاد ہو تو وہ اس کی مدد نہیں کرتا۔ (ابوداود: ۲۹۳۲) لیکن کیا نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بھی اسی قانون میں داخل ہیں؟ تو دوسری احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو حفاظت و سلامت میں رکھا، جیسا کہ درج ذیل حدیث سے ثابت ہوتا ہے: سیدنا ابو سعیدخدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((مَا بَعَثَ اللّٰہُ مِنْ نَّبِیٍّ وَلَا اسْتَخْلَفَ مِنْ خَلِیْفَۃٍ اِلاَّ کَانَتْ لَہٗ بِطَانَتَانِ: بِطَانَۃً تَاْمُرُہٗ بِالْمَعْرُوْفِ وَتْحُضُّہٗ عَلَیْہِ وَبِطَانَۃً تَاْمُرُہٗ بِالشَّرِ وَتَحُضُّہٗ عَلَیْہِ فَالْمَعْصُوْمُ مَنْ عَصَمَ اللّٰہٗ تَعَالٰی۔)) … اللہ تعالیٰ نے کوئی نبی نہیں بھیجا اور نہ کسی خلیفے کو خلافت عطا کی، مگر اس کے ساتھ دو ہم راز ہوتے ہیں، ایک ہم راز اسے نیکی کا حکم دیتا ہے اور اس کی رغبت دلاتا ہے اور ایک ہم راز شرّ کا حکم دیتا ہے اور اس پر آمادہ کرتا ہے، اور معصوم وہ ہے، جسے اللہ تعالیٰ بچا لے۔ (صحیح بخاری: ۷۱۹۸) اس لیے شرّ والے ہم راز کی صحبت اور آمادگی سے یہ تو لازم نہیں آتا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کی بات قبول کر لیں۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے حق میں دو ہم رازوں سے مراد فرشتہ اور شیطان ہوں، جیسا کہ سیدنا عبد اللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((مَا مِنْکُمْ مِنْ اَحَدٍ اِلاَّ وَقَدْ وَکَّلَ اللّٰہٗ بِہٖ قَرِیْنَہٗ مِنَ الْجِنِّ)) قَالُوْا: وَاِیَّاکَ؟ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ: ((وَاِیَّایَ، اِلاَّ اَنَّ اللّٰہَ اَعَانَنِیْ عَلَیْہِ فَاَسْلَمَ، فَـلَا یَأْمُرُنِیَ اِلاَّ بِخَیْرٍ۔)) … اللہ تعالیٰ نے تم میں سے ہر ایک کے ساتھ ایک شیطان مصاحب مقرر کر دیا ہے۔ صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ (کا معاملہ بھی یہی ہے)؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی، میرے ساتھ بھی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے میری مدد کی اور وہ مسلمان ہو گیا، اب وہ مجھے صرف خیر کا حکم دیتا ہے۔ (صحیح مسلم: ۲۸۱۴)