Blog
Books
Search Hadith

باب چہارم: حکمرانی طلب کرنے سے ممانعت اور اس سے نفرت دلانے کا بیان

۔ (۱۲۰۶۴)۔ وعَنِ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((إِنَّکُمْ سَتَحْرِصُونَ عَلَی الْإِمَارَۃِ، وَسَتَصِیرُ حَسْرَۃً وَنَدَامَۃً۔)) قَالَ حَجَّاجٌ: یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، ((نِعْمَتِ الْمُرْضِعَۃُ وَبِئْسَتِ الْفَاطِمَۃُ۔)) وَفِیْ رِوَایَۃٍ لَہٗ: اَنَّالنَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((إِنَّکُمْ سَتَحْرِصُونَ عَلَی الْإِمَارَۃِ، وَسَتَصِیرُ نَدَامَۃً وَحَسْرَۃًیَوْمَ الْقِیَامَۃِ، فَبِئْسَتِ الْمُرْضِعَۃُ وَنِعْمَتِ الْفَاطِمَۃُ۔)) (مسند احمد: ۱۰۱۶۵)

سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم لوگ عنقریب امارت،حکمرانی کا لالچ کرو گے، لیکن یہ چیز قیامت والے دن بطورِ انجام حسرت اور ندامت ہوئی، یہ دودھ پلانے کے لحاظ سے تو بہت اچھی ہے، لیکن دودھ چھڑانے کی حیثیت میں بہت بری ہے۔ ایک روایت میں ہے: نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم عنقریب امارت اور حکمرانی کا لالچ کر وگے، لیکن قیامت کے دن اس کا انجام مذامت اور حسرت ہوگا، یہ دودھ پلاتے ہوئے بہت اچھی اور دودھ چھڑانے کے بعد بہت بری لگتی ہے۔
Haidth Number: 12064
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۲۰۶۴) تخریج: اخرجہ البخاری: ۷۱۴۸ (انظر: ۱۰۱۶۲)

Wazahat

فوائد:… امام البانی ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ کہتے ہیں: ابو الحسن سندھی ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ کہتے ہیں: فَنِعْمَتِ الْمُرْضِعَۃُ (دودھ پلانے والی تو اچھی ہوتی ہے) سے مراد زندگی کی حالت ہے، جو امارت تک پہنچاتی ہے اور وَبِئْسَتِ الْفَاطِمَۃُ (دودھ چھڑانے والی بڑی بری ہوتی ہے) سے مراد وہ حالت ہے، جس میں امارت کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے اور وہ موت ہے، ان دو جملوں کا مفہوم یہ ہوا کہ امارت والوں کی زندگی تو بڑی اچھی ہوتی ہے، لیکن موت بڑی بری ہوتی ہے۔ واللہ اعلم۔ (صحیحہ: ۲۵۳۰) دنیا میں سب سے زیادہ ذمہ داریاں وقت کے امیر او رحاکم پر عائد ہوتی ہیں، انھوں نے رعایا کے ہر فرد کی مذہبی ضرورت پوری کرنی ہے، اپنی سلطنت میں قرآن و حدیث کے احکام عملی طور پر نافذ کرنے ہیں، مساجد کی امامت کا عہدہ سنبھالنا ہے، موقع ملے تو فتوحات کے سلسلے کو جاری رکھنا ہے، ہر گھر کی مالی اور دنیوی ضرورتیں پوری کرنی ہیں، رعایا کی دشمنانِ اسلام سے حفاظت کرنی ہے، اسلام کو پچھلی نسلوںسے منتقل کر کے اگلی نسلوں تک پہنچانا ہے، رعایا کے کسی فرد کو کسی دوسرے فرد پر ظلم کرنے کا موقع نہیں دینا … … غرضیکہ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی نیابت اختیار کرنی ہے۔ لیکن یہ ذمہ داریاں کون پوری کرے گا، خصوصا اس دور میں، جہاں عیاشیوں کے لیے عہدوں کے تختوں پر چڑھا جاتا ہے۔ سچ فرمایا رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے، کہ امارت و حاکمیت کی گھڑیاں ندامت و حسرت کا سماں پیدا کریں گی، لیکن اس وقت، جب پچھتاوا فائدہ نہیں دے گا۔