Blog
Books
Search Hadith

فصل دوم: اللہ کی نافرمانی کی صورت میں کسی انسان کی اطاعت نہیں ہے

۔ (۱۲۱۱۷)۔ (وَعَنْہ) عَنْ عَلِیٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سَرِیَّۃً، وَاسْتَعْمَلَ عَلَیْہِمْ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ، قَالَ: فَلَمَّا خَرَجُوْا، قَالَ: وَجَدَ عَلَیْہِمْ فِی شَیْئٍ، فَقَالَ لَہُمْ: أَلَیْسَ قَدْ أَمَرَکُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنْ تُطِیعُونِی؟ قَالَ: قَالُوْا: بَلٰی، قَالَ: فَقَالَ: اجْمَعُوْا حَطَبًا، ثُمَّ دَعَا بِنَارٍ، فَأَضْرَمَہَا فِیہِ، ثُمَّ قَالَ: عَزَمْتُ عَلَیْکُمْ لَتَدْخُلُنَّہَا، قَالَ: فَہَمَّ الْقَوْمُ أَنْ یَدْخُلُوہَا، قَالَ: فَقَالَ لَہُمْ شَابٌّ مِنْہُمْ: إِنَّمَا فَرَرْتُمْ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ النَّارِ، فَلَا تَعْجَلُوْا حَتّٰی تَلْقَوُا النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ،فَإِنْ أَمَرَکُمْ أَنْ تَدْخُلُوہَا فَادْخُلُوْا، قَالَ: فَرَجَعُوْا إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَخْبَرُوہُ، فَقَالَ لَہُمْ: ((لَوْ دَخَلْتُمُوہَا مَا خَرَجْتُمْ مِنْہَا أَبَدًا، إِنَّمَا الطَّاعَۃُ فِی الْمَعْرُوفِ۔))

سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک جہادی لشکر روانہ کیااور ایک نصاری کو ان پر امیر مقر ر فرمایا، وہ کسی بات پر اپنے لشکر سے ناراض ہوگیا، اس نے ان سے کہا: کیا رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تمہیں میری اطاعت کرنے کا حکم نہیں دیا ہے؟ صحابہ نے کہا: جی ہاں،دیا ہے، پس اس نے کہا: لکڑیاں جمع کرو، پھر اس نے آگ منگوا کر ان کو آگ لگا دی اور کہا:میں تم لوگوں کو تاکیدی حکم دیتا ہو ں کہ تم اس آگ میں کود جاؤ، بعض لوگوں نے تو واقعی آگ میں گھس جانے کا ارادہ کر لیا، اتنے میں ان میں سے ایک نوجوان نے کہا: تم آگ سے بچنے کے لیے تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف آئے ہو، لہٰذا جلدبازی نہ کرو، پہلے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے تو مل لو، اگر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے آگ میں داخل ہونے کا حکم ہی دیا تو داخل ہوجانا، پس جب وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف لوٹے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سارا ماجرہ سنایا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: اگر تم آگ میں داخل ہوجاتے تو کبھی بھی اس سے نہ نکل سکتے، اطاعت صرف جائز کا م میں ہوتی ہے۔
Haidth Number: 12117
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۲۱۱۷) تخریج: اخرجہ البخاری: ۴۳۴۰، ومسلم: ۱۸۴۰ (انظر: ۶۲۲)

Wazahat

فوائد:… کوئی اعلی ہو یا ادنی، حاکم ہو یا محکوم، جس کی بات بھی قرآن و حدیث کے مخالف ہو گی، اس کی کوئی اطاعت نہیں کی جائے گی۔ امام البانی ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ لکھتے ہیں: یہ حدیث ِ مبارکہ کئی فوائد پر مشتمل ہے، ایک فائدہ یہ ہے: اللہ تعالیٰ کی معصیت میں کسی کی اطاعت نہیںکی جا سکتی، وہ امراء و حکام ہوں یا علماء و مشائخ۔ معلوم ہوا کہ درج ذیل تین گروہ گمراہ ہیں: (پہلا گروہ)… بعض صوفی منش لوگ اپنے پیروں اور شیخوں کی تقلید کرتے ہیں، اگرچہ وہ ان کو واضح نافرمانی کا حکم دیں، ان کی دلیل یہ ہے کہ وہ درحقیقت نافرمانی نہیں ہوتی، کیونکہ شیخ کی علم و معرفت کی سطح مرید سے کہیں زیادہ ہوتی ہے اور جو کچھ شیخ دیکھتا ہے، وہ مرید کو نظر نہیں آ رہا ہوتا۔ میں ایک ایسے ہی شیخ کو جانتا ہوں، وہ اپنے آپ کو مرشد سمجھتا ہے، وہ ایک دن مسجد میں اپنے مریدوں کے سامنے ایک قصہ بیان کر رہا تھا، جس کا خلاصہ یہ ہے: ایک صوفی شیخ نے ایک رات اپنے مرید کو حکم دیا کہ وہ اپنے باپ کو قتل کر کے آئے، جو اِس وقت بستر پر اپنی بیوی کے ساتھ لیٹا ہوا تھا، سو اس نے اپنے باپ کو قتل کر دیا اور اس بات پر خوش تھا کہ اس نے اپنے شیخ کے حکم کی تعمیل کی ہے۔ جب شیخ نے اس کی طرف دیکھا تو پوچھا: کیا تو اس گمان میں ہے کہ تو نے اپنے حقیقی باپ کو قتل کر دیا؟ نہیں،نہیں۔ وہ تو تیری ماں کا یار تھا، تیرا باپ تو گھر پر موجود ہی نہ تھا۔ اس نے قصہ بیان کر کے اس سے بزعم خودایک شرعی حکم کا استدلال کرتے ہوئے کہا: جب کوئی شیخ اپنے مرید کو ایسا حکم دے،جو شریعت کے مخالف ہو، تو مرید کو چاہیے کہ وہ اس کی پاسداری کرے۔ تم لوگ دیکھتے نہیں کہ اس شیخ نے اپنے مرید سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ اپنے باپ کو قتل کر کے آئے۔ دراصل وہ اسے اس کی ماں کے ساتھ زناکرنے والے کو قتل کرنے کا حکم دے رہا تھا اور وہ شرعاً قتل کا ہی مستحق تھا۔ قارئین کرام! غور فرمائیں کہ اس قصہ کے باطل ہونے کی کئی وجوہات ہیں ، مثال کے طور پر: (اول)… حدّ نافذ کرنا شیخ کا حق نہیں ہے، وہ کتنا عظیم ہی کیوں نہ ہو، یہ امیر یا والی کا حق ہے۔ (دوم)… اگر اس شیخ کو نفاذِ حدّ کا حق تھا تو اس نے عورت پر حدّ کیوں نہ لگائی؟ کیونکہ وہ دونوں اس برائی میں برابر کے مجرم اور برابر کے سزا کے حقدار تھے۔ (سوم)… شادی شدہ زانی کی حد رجم یعنی پتھروں سے سنگسار کرنا ہے، نہ کہ صرف قتل۔ واضح ہوا کہ شیخ نے کئی طرح سے شریعت کی مخالفت کی، یہی معاملہ اِ س مرشد کا ہے، جو اس قصے کو بنیاد بنا کر شیخ کی تقلید کو واجب قرار دے رہا ہے، اگرچہ یہ قصہ شریعت کے مخالف ہے۔ اِس مرشد نے اپنے باطل بیان کے دوران مریدوں سے یہ بات بھی کہی تھی کہ اگر تم اپنے شیخ کی گردن میں صلیب دیکھو تو تم اس پر اعتراض کرنے کا کوئی جواز نہیں رکھتے۔ اگرچہ یہ کلام واضح طور پر باطل ہے اور شرع اور عقل کے مخالف ہے، لیکن اس کے باوجود بااعتماد نوجوانوں سمیت بعض لوگوں پر اس کا جادو چل جاتا ہے۔ اسی قسم کے ایک مرید کے ساتھ اس قصہ کے موضوع پر میرا مباحثہ ہونے لگا، اس نے یہ سارا واقعہ اور اس سے کیا جانے والا استدلال اپنے مرشد سے سنا ہوا تھا۔ اس کے خیال کے مطابق یہ اس شیخ کی کرامت تھی اور اس کا اس قصے کے صحیح ہونے پر مکمل اعتماد تھا۔ اس نے مجھے کہا: تم لوگ کرامتوں کا انکار کرتے ہو۔ لیکن جب میں نے اسے کہا: اگر تیرا شیخ تجھے یہ حکم دے کہ تو اپنے والدین کو قتل کر دے تو کیا اس کی اطاعت کرے گا؟ اس نے کہا: میں ابھی تک اس مقام تک نہیں پہنچا۔ ستیاناس ہو اس قیادت کا، کہ جس سے لوگوں کے عقل ماؤف ہو جاتے ہیں اور وہ ضلالت و گمراہی میں پھنسے ہوئے شیخوں کے اس قدر تابع نظر آتے ہیں۔ (دوسرا گروہ)…مقلدین کا گروہ، جو اپنے امام کے قول کو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی حدیث پر ترجیح دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب کسی مقلِّد سے کہا جاتا ہے کہ اقامت ہو جانے کے بعد فجر کی سنتیں نہ پڑھا کرو، کیونکہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے، تو وہ اس حدیث کی اطاعت نہیںکرے گا، بلکہ یوں لب کشائی کرے گا: ہمارے مذہب میں جائز ہے۔ اسی طرح جب (حنفی) مقلدوں سے کہا جاتا ہے کہ حلالہ والا نکاح باطل ہے، کیونکہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایسے کرنے والے پر لعنت کی ہے، تو وہ جواب دے گا: نہیں، نہیں۔ بلکہ فلاں فلاں مذہب کے مطابق جائز ہے۔ اسی طرح کے سینکڑوں مسائل ہیں۔ اکثر محقق علماء و فقہاء کا یہ خیال ہے کہ اس قسم کے مقلد اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا مصداق ہیں: {اِتَّخَذُوْا أَحْبَارَھُمْ وَ رُہْبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ} (سورۂ توبہ: ۳۱) … ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور درویشوں کو ربّ بنایا ہے۔ فخر الرازی نے اپنے تفسیر میں اس کی خوب وضاحت کی ہے۔ (تیسرا گروہ) …وہ لوگ، جو اپنے حکمرانوں کے وضع کردہ ان قوانین و ضوابط کی پیروی کرتے ہیں، جو شریعت کے مخالف ہوتے ہیں، جیسے کیمونزم اور اس کے ملتے جلنے نظام۔ اور ان سے بدتر وہ لوگ ہیں، جو شریعت کے ان مخالف امور کو شریعت سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ ایسی مصیبت ہے جس نے عصرِ حاضر کے علم و اصلاح کے دعویداروں کا گھیراؤ کر لیا ہے اور عوام کو ان سے بڑا دھوکہ ہوا ہے۔ یہ بات صحیح ہے کہ یہ پیروکار اپنے قائدین سمیت اس آیت کا مصداق بنتے ہیں: {اِتَّخَذُوْا أَحْبَارَھُمْ وَ رُہْبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ} (سورۂ توبہ: ۳۱) … ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور درویشوں کو ربّ بنایا ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے حمایت و حفاظت اور سلامتی کا سوال کرتے ہیں۔ (صحیحہ: ۱۸۱)