Blog
Books
Search Hadith

فصل چہارم: مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ رہنے اور بادشاہ کا اکرام کرنے کا بیان

۔ (۱۲۱۳۲)۔ عَنْ أَبِی بَکْرَۃَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((مَنْ أَکْرَمَ سُلْطَانَ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی فِی الدُّنْیَا، أَکْرَمَہُ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، وَمَنْ أَہَانَ سُلْطَانَ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی فِی الدُّنْیَا،أَہَانَہُ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔)) (مسند احمد: ۲۰۷۰۵)

سیدنا ابو بکرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے،رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو آدمی دنیا میں اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے بادشاہ کا اکرام کرے، اللہ قیامت کے دن اس کا اکرام کرے گا اور جس نے دنیا میں اللہ کے بنائے ہوئے بادشاہ کی توہین و تذلیل کی، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے ذلیل ورسوا کرے گا۔
Haidth Number: 12132
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۲۱۳۲) تخریج: حسن، قالہ الالبانی، اخرجہ الترمذی: ۲۲۲۴ (انظر: ۲۰۴۳۳)

Wazahat

فوائد:… بادشاہ کی عزت اور بے عزتی عام آدمی کی عزت اور بے عزتی کی بہ نسبت زیادہ اہمیت رکھتی ہے، ہر صاحب ِ عزت اس چیز کو محسوس کرتا ہے، اس لیے حکمرانوں کے ساتھ وہ رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیے، جو عوام الناس کے ساتھ اختیار کیا جاتا ہے، اسی قسم کی ایک درج ذیل مثال پر غور کریں: سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((اَقِیْلُوْا ذَوِيْ الْھَیْئَاتِ عَثَرَاتِھِمْ اِلَّا الْحُدُوْدَ۔)) … صاحب ِ حیثیت لوگوں کی غلطیاں معاف کر دیا کرو، مگریہ کہ وہ حدود ہوں۔ (ابو دواد: ۴۳۷۵، صحیحہ: ۶۳۸) دنیا کا ہر وہ معاشرہ جس کو تہذیب و شائستگی سے ادنی سا تعلق بھی رہا ہو، اپنے اندر موجود باوقار، شریف النفس اور رذائل سے دور رہنے والے افراد کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور ان کی چھوٹی چھوٹی کوتاہیوں اور فرو گذاشتوں کو نظر انداز کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ کیونکہ شریعت کا مقصد تربیت کرنا ہے، تربیت کے لیے ضروری نہیں کہ زجر و توبیخ سے ہی کام لیا جائے یا تعزیر ہی لگائی جائے، کیونکہ بعض صاحب ِ حیثیت لوگوں کو شرم دلانے کے لیے اور آئندہ ایسے جرائم سے محفوظ کرنے کے لیے یہی کافی ہوتا ہے کہ لوگوں پر ان کا پول کھل جائے، جبکہ عام لوگوں کو سمجھانے کیلیے یہ کلیہ کافی نہیں ہے۔ اس حدیث ِ مبارکہ میں اسی اخلاقی خوبی کو سراہنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے، ہاں اگر جرم کی نوعیت حدود اللہ کی پامالی تک جا پہنچتی ہے تو پھر قانون مساوات سب کے لیے ہے۔