Blog
Books
Search Hadith

فصل اول: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیعت لینے کی کیفیت کا بیان

۔ (۱۲۱۳۸)۔ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ، أَخْبَرَنَا خَالِدٌ الْحَذَّائُ، عَنْ أَبِی قِلَابَۃَ، قَالَ خَالِدٌ: أَحْسِبُہُ ذَکَرَہُ عَنْ أَبِی أَسْمَائَ، قَالَ عُبَادَۃُ بْنُ الصَّامِتِ: أَخَذَ عَلَیْنَا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَمَا أَخَذَ عَلَی النِّسَائِ سِتًّا: ((أَنْ لَا تُشْرِکُوا بِاللّٰہِ شَیْئًا، وَلَا تَسْرِقُوا، وَلَا تَزْنُوا، وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَکُمْ، وَلَا یَعْضِدْ بَعْضُکُمْ بَعْضًا، وَلَا تَعْصُونِی فِی مَعْرُوفٍ، فَمَنْ أَصَابَ مِنْکُمْ مِنْہُنَّ حَدًّا، فَعُجِّلَ لَہُ عُقُوبَتُہُ، فَہُوَ کَفَّارَتُہُ، وَإِنْ أُخِّرَ عَنْہُ، فَأَمْرُہُ إِلَی اللّٰہِ تَعَالٰی، إِنْ شَائَ عَذَّبَہُ وَإِنْ شَائَ رَحِمَہُ۔)) (مسند احمد: ۲۳۰۴۴)

سیدناعبادہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: جس طرح رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خواتین سے چھ امور کی بیعت لی تھی، اسی طرح ہم سے بھی اتنے امور کی کی بیعت لی، یہ کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراؤگے، چوری نہیں کروگے، زنا نہیں کر و گے، اپنی اولادوں کو قتل نہیں کر و گے، ایک دوسرے سے قطع تعلقی نہیں کرو گے، اور نیکی کے کسی کام میں میری نافرمانی نہیں کرو گے، تم میں سے جس کسی نے کوئی ایسا کام کیا جس پر شرعی حد واجب ہوتی ہو، تو اگر اس کو دنیا میں اس جرم کی سزا مل گئی تو وہ سزا اس کے لیے کفارہ ہوگی اور اگر سزا آخرت تک مؤخر ہوگئی تو اللہ تعالیٰ اس کو عذاب بھی دے سکتا ہے اور معاف بھی کر سکتا ہے، جیسے اس کی مرضی ہو گی۔
Haidth Number: 12138
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۲۱۳۸) تخریج: اخرجہ البخاری: ۴۸۹۴، ۶۷۸۴، ومسلم: ۱۷۰۹(انظر: ۲۲۶۶۸)

Wazahat

فوائد:… یہ بیعت کا اصول ہے کہ لوگوں سے نیک اعمال سرانجام دینے اور برے اعمال سے اجتناب کرنے کی بیعت لی جائے۔ آجکل مخصوص شخصیات کو بیعت کے لیے خاص کر لیا گیا ہے اور جہاں ان کی بیعت کو ضروری سمجھا جاتا ہے، وہاں دوسروں کو ترغیب بھی دی جاتی ہے اور ان لوگوں پر طعن و تشنیع اور سب و شتم کیا جاتا ہے جو اس قسم کی بیعت سے محروم رہتے ہیں، حالانکہ یہ سب کچھ بے سر و پا اور بے حقیقت ہے۔ امام البانی ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ رقمطراز ہیں: اس حدیث ِ مبارکہ میں خوارج کا ردّ ہے، جو کبیرہ گناہوں کی وجہ سے اہل توحید کو کافر قرار دیتے ہیں اور معتزلہ کا بھی ردّ ہے، جو توبہ کے بغیر مرنے والے فاسق مسلمان کے لیے سزا کو ضروری قرار دیتے ہیں، کیونکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا کہ توحید پرست گنہگار کی تعذیب یا عدمِ تعذیب کا مسئلہ اللہ تعالیٰ کی مشیت پر ہے، وہ چاہے تو سزا دے اور چاہے تو معاف کر دے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ضرور سزا دے گا۔ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا بھی یہی مفہوم ہے: {اِنَّ اللّٰہَ لَایَغْفِرُ اَنْ یُشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَائُ} (سورۂ نسائ: ۴۸، ۱۱۶) … یقینا اللہ تعالیٰ (اس گناہ کو) نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے اور اس کے سوا جسے چاہے بخش دیتاہے۔ اللہ تعالیٰ نے شرک اور دوسرے گناہوں کے درمیان فرق کیا ہے، یعنی شرک ناقابل معافی ہے اور دوسرے گناہ اس کی مشیت کے تابع ہیں، وہ ان کو معاف بھی کر سکتا ہے اور ان پر گرفت بھی کر سکتا ہے۔ ضروری ہے کہ اس آیت اور حدیث کو اس شخص پر محمول کیا جائے جو گناہوں سے توبہ کیے بغیر مر گیا ہو، کیونکہ جو آدمی زندگی میں شرک اور دوسرے گناہوں سے توبہ کر لیتا ہے اور اس کی توبہ قبول ہو جاتی ہے تو اسے بخش دیا جائے گا۔ میں اس استدلال کے ذریعے عصرِ حاضر کے ایسے لوگوں کا ردّ کرنا چاہتا ہوں جو کبھی تو کبیرہ گناہوں کی وجہ سے مسلمانوں کو کافر قرار دیتے ہیں اور کبھی یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ یہ گناہ توبہ کے بغیر معاف نہیں ہو گا اور اگر کوئی مسلمان کبیرہ گناہ کا ارتکاب کر کے توبہ کیے بغیر مر جائے گا، تو اسے ہر صورت میں سزا ہو گی۔ ان لوگوں نے کتاب و سنت کی مخالفت کرتے ہوئے شرک اور اس سے ادنی گناہوں کو اس اعتبار سے برابر قرار دیا ہے کہ دونوں کی وجہ سے عذاب ضروری ہے، میں نے مختلف اوقات اور مجالس میں دلائل کے ساتھ ان لوگوں کا ردّ کیا ہے، بعض نے تو متأثر ہو کر اس عقیدے سے توبہ کر لی اور بہترین سلفی نوجوانوں میں شامل ہو گئے، اللہ تعالیٰ باقیوں کو بھی ہدایت دے۔ (صحیحہ: ۲۹۹۹)