Blog
Books
Search Hadith

باب اول: ان احادیث کا بیان جن میں ان کی خلافت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے

۔ (۱۲۱۵۵)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی مَرَضِہِ الَّذِی مَاتَ فِیہِ عَاصِبًا رَأْسَہُ فِی خِرْقَۃٍ، فَقَعَدَ عَلَی الْمِنْبَرِ، فَحَمِدَ اللّٰہَ وَأَثْنٰی عَلَیْہِ، ثُمَّ قَالَ: ((إِنَّہُ لَیْسَ أَحَدٌ أَمَنَّ عَلَیَّ فِی نَفْسِہِ وَمَالِہِ مِنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ أَبِی قُحَافَۃَ، وَلَوْ کُنْتُ مُتَّخِذًا مِنَ النَّاسِ خَلِیلًا لَاتَّخَذْتُ أَبَا بَکْرٍ خَلِیلًا، وَلٰکِنْ خُلَّۃُ الْإِسْلَامِ أَفْضَلُ، سُدُّوْا عَنِّی کُلَّ خَوْخَۃٍ فِی ہٰذَا الْمَسْجِدِ غَیْرَ خَوْخَۃِ أَبِی بَکْرٍ))۔ (مسند احمد: ۲۴۳۲)

سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کابیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مرض الموت کے ایام میں اپنے سر پر پٹی باندھے ہوئے باہر تشریف لائے اور ممبر پر جلوہ افروز ہوئے، آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا بیان کی اورپھر فرمایا: اپنی جان اور مال کے بارے میں ابو بکر بن ابی قحافہ سے بڑھ کر میرا کون محسن نہیں ہے،اگر میں نے لوگوں میں سے کسی کو اپنا خلیل بنانا ہوتا تو میں نے ابو بکر کو اپنا خلیل بناتا، البتہ اسلامی دوستی اور تعلق سب سے زیادہ فضیلت والا ہے، اس مسجد کی طرف کھلنے والے ہر دروازے اور راستے کو بند کر دو، ما سوائے ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے راستے کے، وہ کھلا رہے۔
Haidth Number: 12155
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۲۱۵۵) تخریج: اخرجہ البخاری: ۴۶۷ (انظر: ۲۴۳۲)

Wazahat

فوائد:… آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا یہ خطاب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وفات سے پانچ دن پہلے تھا اور یہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا آخری اجتماعی خطاب تھا۔ دیکھیں (۱۰۹۹۰) سُبْحَانَ اللّٰہ! خلیفۂ اول ابوبکر صدیق ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے بختوں‘ نصیبوں اور سعادتوں کا کیا کہنا ‘ کہ پیغمبر اسلام‘ پیغمبروں کے سردار اپنی موت سے چند ایام قبل جن لاجواب احسانات کا اقرار کر کے ان سے محبت کرنے کا مژدہ سناتے ہیں‘ یہ صدیق اکبر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے حق میں لاثانی اور بے نظیر منقبت ہے‘ جس میں ان کا کوئی ساجھی نہیں۔ یادرہے کہ خلیل اس محِبّ کو کہتے ہیں جو اپنے دل میں اپنے محبوب سے اتنی زیادہ سچی اور گہری محبت رکھتا ہو کہ اب مزید اس کے دل میں کسی کے لئے کوئی گنجائش باقی نہ رہی ہو۔ ایسی محبت کو خلّت کہتے ہیں اور محبت کا یہ انداز صرف اللہ تعالیٰ کے بارے میں اختیار کیا جا سکتا ہے‘ حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اللہ تعالیٰ سے جو شدید محبت (یعنی خلّت) تھی وہ ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے نہ تھی‘ کیونکہ صدیق کا مقام مرتبہ اپنی جگہ پر مسلّم ہے‘ لیکن اللہ تعالیٰ کی ذات سب سے برتر اور اعلی ہے، اس سے کسی کا کوئی موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ہاں محمد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ابوبکر صدیق کیلئے اسلامی مودّت و محبّت کا دعوی بحال رکھا‘ جس کا مرتبہ خلّت سے کم ہے۔ (حافظ ابن حجرؒ نے خلیل کے نو معانی ذکر کئے ہیں۔ دیکھیں: فتح الباری: حدیث ۳۶۵۷ کے تحت) خطابی اور ابن بطال وغیرہ نے کہا: اس حدیث میں ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو عظیم خصوصیت سے نوازا گیا‘نیز اس میں یہ قوی اشارہ موجود ہے کہ ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ خلافت کے مستحق ہیں‘ … اور بعض نے تو اس بات کا دعوی کیا کہ دروازے کے ذریعے کنایۃً خلافت کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔ (دیکھیں: فتح الباری: حدیث ۳۶۵۴ کے تحت) ہمیں حدیث مبارکہ سے عملی سبق یہ ملتا ہے کہ محبت و مودت‘ احترام و اکرام‘ عزت و مرتبت اور دوستی و یاری کا معیار اسلام ہونا چاہئے‘ محب اور محبوب کے تعلق کی بنیاد میں اللہ اور اس کے رسول کا نام پایا جانا چاہئے‘ یہی واحد تعلق ہے جو بروز قیامت بھی بحال رہے گا۔ رہا اس دوستی کا مسئلہ جس کی بنیاد کسی خاندانی تعلق‘ دنیوی منفعت‘ سیاسی ناطے‘ حسن و جمال‘ شخصیت پرستی یا فسق و فجور پر ہو‘ وہ قیامت کے دن دشمنی کا لبادہ اوڑھ لے گی‘ قرآن مجید گوہر افشاں ہے: {اَ لْاَخِلَّائُ یَوْمَئِذٍ بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِیْنَ} … قیامت کے دن گہرے دوست بھی دشمن بن جائیں گے‘ سوائے پرہیزگاروں کے (کہ جن کی دوستی دین اور رضائے الہی کی بنیاد پر ہوتی ہے) (سورۂ زخرف: ۶۷) آئیے! ہم بھی جائزہ لیں اور اپنے تعلق کی عمارت کو نبی و صدیق کی محبت کی بنیادوں پر استوار کریں‘ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو انسان درج ذیل تین خصائل سے متصف ہو گا ‘ وہ ان کی بدولت ایمان کی حلاوت اور لذت محسوس کرے گا: ۱۔ اسے اللہ اور اس کا رسول کائنات کی ہر چیز کی بہ نسبت زیادہ محبوب ہوں۔ ۲۔ وہ کسی آدمی سے صرف اللہ تعالیٰ کے لئے محبت رکھتا ہو۔ ۳۔ اللہ کی توفیق سے کفر سے بچ جانے کے بعد دوبارہ کفر میں لوٹنے کو اس طرح برا سمجھے جیسے وہ آگ میں ڈالے جانے کو برا سمجھتا ہے۔ (صحیح بخاری: ۱۶، صحیح مسلم: ۴۳) نیز سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((اِنَّ اللّٰہَ یَقُوْلُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ: اَیْنَ الْمُتَحَابُّوْنَ بِجَلَالِیْ، اَلْیَوْمَ اُظِلُّھُمْ فِیْ ظِلِّیْ یَوْمَ لَا ظِلَّ اِلَّا ظِلِّی)) یعنی: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اعلان کرے گا: میری عظمت و جلال کی وجہ سے آپس میں محبت کرنے والے کہاں ہیں؟ آج میرے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہیں‘ لیکن میں انہیں اپنے سائے میں جگہ دوں گا۔ (صحیح مسلم: ۱۰۳۱)