Blog
Books
Search Hadith

فصل پنجم: سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی ہیبت اور وقار کا بیان

۔ (۱۲۲۱۳)۔ عَنْ بُرَیْدَۃَ الْاَسْلَمِیِّ أَنَّ أَمَۃً سَوْدَائَ أَتَتْ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ رَجَعَ مِنْ بَعْضِ مَغَازِیہِ، فَقَالَتْ: إِنِّی کُنْتُ نَذَرْتُ إِنْ رَدَّکَ اللّٰہُ صَالِحًا، أَنْ أَضْرِبَ عِنْدَکَ بِالدُّفِّ، قَالَ: ((إِنْ کُنْتِ فَعَلْتِ فَافْعَلِی، وَإِنْ کُنْتِ لَمْ تَفْعَلِی فَلَا تَفْعَلِی۔)) فَضَرَبَتْ فَدَخَلَ أَبُو بَکْرٍ وَہِیَ تَضْرِبُ، وَدَخَلَ غَیْرُہُ وَہِیَ تَضْرِبُ، ثُمَّ دَخَلَ عُمَرُ، قَالَ: فَجَعَلَتْ دُفَّہَا خَلْفَہَا، وَہِیَ مُقَنَّعَۃٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((إِنَّ الشَّیْطَانَ لَیَفْرَقُ مِنْکَ یَا عُمَرُ، أَنَا جَالِسٌ ہَاہُنَا، وَدَخَلَ ہٰؤُلَائِ، فَلَمَّا أَنْ دَخَلْتَ، فَعَلَتْ مَا فَعَلَتْ۔)) (مسند احمد: ۲۳۳۷۷)

سیدنا بریدہ اسلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ایک بار اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کسی غزوہ سے واپس تشریف لائے تو ایک سیاہ فام لونڈی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس نے کہا:میں نے نذر مانی تھی کہ اگر اللہ تعالیٰ آپ کو صحیح سالم واپس لائے تومیں آپ کے پاس دف بجاؤں گی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر تم نے یہ نذر مانی ہے تو اسے پورا کر لو اور اگر تم نے یہ منت نہیں مانی تھی تو اس کام کو رہنے دو۔ پس وہ دف بجانے لگ گئی، اسی دوران سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تشریف لے آئے، وہ دف بجاتی رہی، کچھ دوسرے حضرات بھی آئے، وہ مسلسل دف بجاتی رہی۔ لیکن بعد میں جب سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آئے تو اس نے دف کو اپنے پیچھے کر لیا اور خود بھی چھپنے لگی۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عمر! بیشک تجھ سے تو شیطان بھی ڈرتا ہے، میں یہاں بیٹھا ہوں اور یہ لوگ بھی آئے ہیں، یہ لونڈی دف بجانے میں مگن رہی، لیکن جب تم آئے تو اس نے یہ کاروائی کی ہے۔
Haidth Number: 12213
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۲۲۱۳) تخریج: اسنادہ قوی، اخرجہ الترمذی: ۳۶۹۰ (انظر: ۲۲۹۸۹)

Wazahat

فوائد:… اگرچہ اس موقع پر اس لونڈی کا دف بجانا جائز تھا، تبھی تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اجازت دی۔ یہ عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا رعب اور ہیبت تھی، جس کا رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بھی لحاظ کرتے تھے۔ امام البانی ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ نے کہا: اس حدیث کی وجہ سے بعض لوگ اشکال میں پڑ گئے ہیں اور وہ یہ کہ نکاح اور عید کے علاوہ دف بجانا معصیت اور نافرمانی کا کام ہے اور نافرمانی پر مشتمل نذر ماننا بھی ناجائز ہے اور اس کو پورا کرنا بھی ناجائز ہے، لیکن اس موقع پر اجازت کیوں دی گئی؟ مجھے تویہ معلوم ہوتا ہے کہ اس عورت کی نذر کا تعلق اس خوشی سے تھا، جو غزوے سے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے فاتح لوٹنے سے نصیب ہونی تھی، اس لیے اسے اس خوشی کے موقع پر دف بجانے کی اجازت دے دی گئی، لیکن یہ چیز آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی فتح کے ساتھ مخصوص رہنی چاہیے، اس گنجائش کا مطلب یہ نہیں کہ تمام خوشیوں کے موقعوں پر دف بجانے کی رخصت دے دی جائے، کیونکہ کوئی خوشی بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے فاتح لوٹنے کی خوشی کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ دوسری بات یہ ہے عام شرعی دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ موسیقی کے آلات اور دف وغیرہ کا استعمال حرام ہے، مگر وہ صورتیں جن میں دف کی اجازت دی گئی۔ (صحیحہ: ۱۶۰۹) امام البانی ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ نے دوسرے مقام پر فرمایا: یہ بات تو معروف ہے کہ دُفّ، موسیقی اور ساز کے ان آلات میں سے ہے، جو شریعت ِ اسلامیہ میں حرام ہیں اور فقہائے اربعہ سمیت بڑے بڑے ائمہ اس کی حرمت پر متفق ہیں، اس موضوع پر صحیح احادیث پائی جاتی ہیں، البتہ شادی بیاہ اور عیدین کے موقع پر صرف دُفّ بجانے کی اجازت دی گئی ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس عورت کو دف بجانے کی نذر پوری کرنے کی اجازت کیوں دی، حالانکہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں مانی گئی نذر پوری نہیں کی جاتی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس نذر کا تعلق اس خوشی سے تھا، جو اس کو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے فاتح اور سالم لوٹنے سے نصیب ہونی تھی، اس لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کو شادی اور عیدین کے موقع پر بجائے جانے والے دف کا حکم دیا، اور بلاشک و شبہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا غزوہ سے کامیابی و کامرانی کے ساتھ لوٹنے کی خوشی اتنی بڑی ہے کہ اس کو شادی اور عید کی خوشی پر بھی قیاس نہیں کیا جا سکتا، اس لیے اس حکم کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ خاص سمجھا جائے گا اور کسی دوسرے کے معاملے کو اس پر قیاس نہیں کیا جائے گا، کیونکہ یہ لوہاروں کو فرشتوں پر قیاس کرنے والی بات ہو گی۔ امام خطابی نے (معالم السنن) میں اور علامہ صدیق حسن خان نے (الروضۃ الندیۃ: ۲/۱۷۷۔ ۱۷۸) میں جمع و تطبیق کی یہی صورت ذکر کی ہے۔ (صحیحہ: ۲۲۶۱)