Blog
Books
Search Hadith

فصلِ دوم: سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے زمانۂ خلا فت میں ۱۵ ھ ؁ میں ہونے والے واقعۂ یرموک کا بیان

۔ (۱۲۲۱۹)۔ عَنْ سِمَاکٍ، قَالَ سَمِعْتُ عِیَاضًا الْأَشْعَرِیَّ، قَالَ: شَہِدْتُ الْیَرْمُوکَ، وَعَلَیْنَا خَمْسَۃُ أُمَرَائَ، أَبُو عُبَیْدَۃَ بْنُ الْجَرَّاحِ وَیَزِیدُ بْنُ أَبِی سُفْیَانَ وَابْنُ حَسَنَۃَ وَخَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ وَعِیَاضٌ، وَلَیْسَ عِیَاضٌ ہٰذَا بِالَّذِی حَدَّثَ سِمَاکًا، قَالَ: وَقَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: إِذَا کَانَ قِتَالٌ فَعَلَیْکُمْ أَبُو عُبَیْدَۃَ، قَالَ: فَکَتَبْنَا إِلَیْہِ أَ نَّہُ قَدْ جَاشَ إِلَیْنَا الْمَوْتُ وَاسْتَمْدَدْنَاہُ، فَکَتَبَ إِلَیْنَا إِنَّہُ قَدْ جَائَ نِی کِتَابُکُمْ تَسْتَمِدُّونِی، وَإِنِّی أَدُلُّکُمْ عَلٰی مَنْ ہُوَ أَعَزُّ نَصْرًا وَأَحْضَرُ جُنْدًا، اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ فَاسْتَنْصِرُوہُ، فَإِنَّ مُحَمَّدًا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ نُصِرَ یَوْمَ بَدْرٍ فِی أَقَلَّ مِنْ عِدَّتِکُمْ، فَإِذَا أَتَاکُمْ کِتَابِی ہٰذَا فَقَاتِلُوہُمْ، وَلَا تُرَاجِعُونِی، قَالَ: فَقَاتَلْنَاہُمْ، فَہَزَمْنَاہُمْ، وَقَتَلْنَاہُمْ أَرْبَعَ فَرَاسِخَ، قَالَ: وَأَصَبْنَا أَمْوَالًا فَتَشَاوَرُوا، فَأَشَارَ عَلَیْنَا عِیَاضٌ، أَنْ نُعْطِیَعَنْ کُلِّ رَأْسٍ عَشْرَۃً، قَالَ: وَقَالَ أَبُو عُبَیْدَۃَ: مَنْ یُرَاہِنِّی؟ فَقَالَ شَابٌّ: أَنَا إِنْ لَمْ تَغْضَبْ، قَالَ: فَسَبَقَہُ فَرَأَیْتُ عَقِیصَتَیْ أَبِی عُبَیْدَۃَ تَنْقُزَانِ، وَہُوَ خَلْفَہُ عَلٰی فَرَسٍ عَرَبِیٍّ۔ (مسند احمد: ۳۴۴)

عیاض اشعر ی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں یرموک کے معرکہ میں شامل تھا، پانچ افراد ہمارے اوپر امیر مقرر تھے، سیدنا ابو عبیدہ بن جراح، سیدنا یزید بن ابی سفیان، سیدنا ابن حسنہ، سیدنا خالد بن ولید اور سیدنا عیاض اس جگہ عیاض سے مراد وہ عیاض نہیں جس سے سماک حدیث بیان کرتے ہیں بلکہ یہ کوئی اور شخص ہے۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے یہ ہدایت دی تھی کہ جب لڑائی شروع ہو تو ابوعبیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تمہارے امیر ہوں گے، ہم نے سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو لکھا کہ موت ہمیں نگلنے کے لیے تیارہے، پھر ہم نے ان سے مزید کمک کا مطالبہ کیا۔ انہوںنے جواباً لکھا کہ مجھے تمہاراخط ملا ہے، تم لوگوں نے مجھے سے مزید کمک طلب کی ہے، میں بہت بڑی طاقت اور تعداد کی طرف تمہاری رہنمائی کرتاہوں، تم اللہ تعالیٰ سے نصرت مانگو، بدر کے دن تمہاری بہ نسبت تعداد بہت کم تھی، لیکن پھر بھی محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی مدد کی گئی تھی، میرا یہ خط جب تمہارے پاس پہنچے تو تم دشمن سے لڑائی شروع کر دینا اور مجھ سے مدد طلب نہ کرنا۔ عیاض کہتے ہیں: جب ہماری دشمن سے لڑائی ہوئی تو ہم نے ان کو شکست دے دی اور ہم نے بارہ میل تک انہیں قتل کیا اور ہمیں بہت سارامالِ غنیمت حاصل ہوا، جب لوگوں نے آپس میں مشاورت کی توعیاض نے ہمیں مشورہ دیاکہ ہم ہر سر کی طرف سے دس دیں۔ سیدنا ابو عبیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تم میں سے کون ہے جو گھڑ دوڑ میں مجھ سے بازی لگائے گا؟ ایک نوجوان نے کہا: اگرآپ ناراض نہ ہوں تو میں حاضر ہوں، چنانچہ وہ آگے آیا، میں نے سیدنا ابو عبیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی دونوں لٹوں کودیکھا کہ وہ ہوا میں لہرا رہی تھیں، وہ نوجوان ان کے پیچھے اور ایک عربی گھوڑے پر سوار تھا یعنی وہ نوجوان ابو عبیدہ کے مقابلہ میں پیچھے رہ گیا۔
Haidth Number: 12219
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۲۲۱۹) تخریج: اسنادہ حسن، اخرجہ ابن ابی شیبۃ: ۱۳/ ۳۴، وابن حبان: ۴۷۶۶(انظر: ۳۴۴)

Wazahat

فوائد:… دمشق، حمص اور لاذقیہ کی پیہم اور متواتر ہزیمتوں نے قیصر کو سخت برہم کر دیا اور وہ نہایت جوش و خروش کے ساتھ مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے اپنے شہنشاہی کا پورا زور صرف کرنے پر آمادہ ہو گیا اور انطاکیہ میں فوجوں کا ایک طوفان امنڈ آیا، سیدنا ابو عبیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اس طوفان کو روکنے کے لیے افسروں کے مشورہ سے تمام ممالک مفتوحہ کو خالی کر کے دمشق میں اپنی قوت مجتمع کی۔ اُدھر جب سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو پتہ چلا تو آپؓ نے سعید بن عامر کو ایک ہزار کی جمعیت کے ساتھ مدد کے لیے روانہ کیا اور قاصد کو یہ پیغام دے کر روانہ کیا: اے برادران اسلام! عمر نے بعد سلام کے تم کو یہ پیغام دیا ہے کہ پوری سرگرمی کے ساتھ جنگ کرو اور دشمنوں پر شیروں کی طرح اس طرح حملہ آور ہو کہ وہ تم کو چیونٹیوں سے زیادہ حقیر معلوم ہوں، ہم کو یقین کامل ہے کہ اللہ کی نصرت تمہارے ساتھ ہے اور آخر فتح تمہارے ہاتھ پر ہے۔ اردن کی حدود میں یرموک کا میدان ضروریات جنگ کے لحاظ سے نہایت باموقع تھا، اس لیے اس اہم معرکہ کے لیے اسی میدان کو منتخب کیا گیا، رومیوں کی تعداد دو لاکھ تھی، ان کے مقابلے میں مسلمانوں کی تعداد صرف تیس بتیس ہزار تھی، لیکن سب کے سب یگانہ روزگار تھے، اس فوج کی اہمیت کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ تقریباً ایک ہزار ایسے بزرگ تھے، جنہوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا جمال مبارک دیکھا تھا، سو وہ تھے، جو غزوۂ بدر میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ رہ چکے تھے، عام مجاہدین بھی ایسے قبائل سے تعلق رکھتے تھے، جو اپنی شجاعت اور سپہ گری میں نظیر نہیں رکھتے تھے۔ یرموک کا پہلا معرکہ بے نتیجہ رہا، ۵ رجب سنہ ۱۵ ہجری کو دوسرا معرکہ پیش آیا، رومیوں کے جوش کا عالم یہ تھا کہ تیس ہزار آدمیوں نے پاؤں میں بیڑیاں پہن لی تھیں کہ بھاگنے کا خیال تک نہ آئے، ہزاروں پادری اور بشپ ہاتھوں میں صلیب لیے آگے آگے تھے اور عیسی علیہ السلام کا نام لے کر جوش دلاتے تھے، اس جوش و اہتمام کے ساتھ رومیوں نے حملہ کیا، فریقین میں بڑی خونریز جنگ ہوئی، لیکن انجام یہ ہوا کہ مسلمانوں کی ثابت قدمی اور پامردی کے آگے ان کے پاؤں اکھڑ گئے، تقریباً ایک لاکھ عیسائی قتل ہوئے اور تین ہزار مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا، جب قیصر کو اس ہزیمت کی خبر ملی تو حسرت و افسوس کے ساتھ شام کو الوداع کہہ کر قسطنطنیہ کی طرف روانہ ہو گیا، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مژدۂ فتح سنا تو اسی وقت سجدہ میں گر کر اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کیا۔