Blog
Books
Search Hadith

فصل سوم: بیت المقدس کی فتح ، جابیہ مقام پر سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا مشہور خطاب اور۱۶ھ میں خالد بن ولید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو امارت سے معزول کرنے کا بیان

۔ (۱۲۲۲۲)۔ عَنْ نَاشِرَۃَ بْنِ سُمَیٍّ الْیَزَنِیِّ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالَی عَنْہُ یَقُولُ فِییَوْمِ الْجَابِیَۃِ وَہُوَ یَخْطُبُ النَّاسَ: إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ جَعَلَنِی خَازِنًا لِہٰذَا الْمَالِ وَقَاسِمَہُ لَہُ، ثُمَّ قَالَ: بَلِ اللّٰہُ یَقْسِمُہُ وَأَنَا بَادِئٌ بِأَہْلِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ أَشْرَفِہِمْ فَفَرَضَ لِأَزْوَاجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَشْرَۃَ آلَافٍ إِلَّا جُوَیْرِیَۃَ وَصَفِیَّۃَ ومَیْمُونَۃَ، فَقَالَتْ عَائِشَۃُ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَعْدِلُ بَیْنَنَا فَعَدَلَ بَیْنَہُنَّ عُمَرُ، ثُمَّ قَالَ: إِنِّی بَادِئٌ بِأَصْحَابِی الْمُہَاجِرِینَ الْأَوَّلِینَ، فَإِنَّا أُخْرِجْنَا مِنْ دِیَارِنَا ظُلْمًا وَعُدْوَانًا ثُمَّ أَشْرَفِہِمْ، فَفَرَضَ لِأَصْحَابِ بَدْرٍ مِنْہُمْ خَمْسَۃَ آلَافٍ، وَلِمَنْ کَانَ شَہِدَ بَدْرًا مِنَ الْأَنْصَارِ أَرْبَعَۃَ آلَافٍ، وَلِمَنْ شَہِدَ أُحُدًا ثَلَاثَۃَ آلَافٍ، قَالَ: وَمَنْ أَسْرَعَ فِی الْہِجْرَۃِ أَسْرَعَ بِہِ الْعَطَائُ، وَمَنْ أَبْطَأَ فِی الْہِجْرَۃِ أَبْطَأَ بِہِ الْعَطَائُ، فَلَا یَلُومَنَّ رَجُلٌ إِلَّا مُنَاخَ رَاحِلَتِہِ، وَإِنِّی أَعْتَذِرُ إِلَیْکُمْ مِنْ خَالِدِ بْنِ الْوَلِیدِ، إِنِّی أَمَرْتُہُ أَنْ یَحْبِسَ ہٰذَا الْمَالَ عَلٰی ضَعَفَۃِ الْمُہَاجِرِینَ، فَأَعْطٰی ذَا الْبَأْسِ وَذَا الشَّرَفِ وَذَا اللَّسَانَۃِ، فَنَزَعْتُہُ وَأَمَّرْتُ أَبَا عُبَیْدَۃَ بْنَ الْجَرَّاحِ فَقَالَ أَبُو عَمْرِو بْنُ حَفْصِ بْنِ الْمُغِیرَۃِ: وَاللّٰہِ! مَا أَعْذَرْتَ یَا عُمَرُ بْنَ الْخَطَّابِ! لَقَدْ نَزَعْتَ عَامِلًا اسْتَعْمَلَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، وَغَمَدْتَ سَیْفًا سَلَّہُ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَوَضَعْتَ لِوَائً نَصَبَہُ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَلَقَدْ قَطَعْتَ الرَّحِمَ، وَحَسَدْتَ ابْنَ الْعَمِّ، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: إِنَّکَ قَرِیبُ الْقَرَابَۃِ، حَدِیثُ السِّنِّ، مُغْضَبٌ مِنْ ابْنِ عَمِّکَ۔ (مسند احمد: ۱۶۰۰۰)

ناشرہ بن سمی یزنی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو جابیہ کے مقام پر سنا، وہ لوگوں سے خطاب کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے مجھے اس مال کا خازن او رتقسیم کنند ہ بنایا ہے۔ پھر کہا: دراصل اللہ تعالیٰ ہی تقسیم کرنے والا ہے، اب میں تقسیم کرتے وقت نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اہل خانہ سے ابتداء کرتا ہوں، پھر ان کے بعد جو افضل ہو گا، اسے دوں گا، چنانچہ انہوں نے امہات المومنین میں سیدہ جو یریہ، سیدہ صفیہ اور سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہن کے سوا باقی تمام ازواج مطہرات کے لیے دس دس ہزار مقرر کیے، لیکن جب سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تو ہمارے درمیان عدل اور برابری فرمایا کرتے تھے، پس سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سب کو برابر برابر حصہ دیا ہے اورپھر کہا: اب میں سب سے پہلے ان حضرات کو دیتا ہوں جو اولین مہاجرین میں سے ہیں، کیونکہ ان لوگوں پر ظلم اورزیادتی کرتے ہوئے ان کو ان کے گھروں سے نکال دیا گیا تھا، ان کے بعد جو لوگ فضل و شرف والے ہوں گے، ان کو دوں گا، پس انہوں نے اصحاب بدر کے لیے پانچ پانچ ہزار مقرر فرمائے اور انصاری بدری صحابہ کے لیے چار چار ہزار اور شرکائے احد کے لیے تین تین ہزار مقرر کیے۔ ساتھ ہی انھوں نے کہا: جس نے ہجرت کرنے میں جلدی کی، اس کو زیادہ دیا جائے گا اور جس نے ہجرت کرنے میںدیر کی، میں بھی اس کو کم حصہ دوں گا، ہر آدمی اپنے اونٹ کے بٹھانے کی جگہ کو ملامت کرے (یعنی اگر کسی کو حصہ کم دیا جا رہا ہے تو وہ اس کی اپنی تاخیر کی وجہ سے ہے، وہ ہم پر طعن نہ کرے) اورمیں تمہارے سامنے خالد بن ولید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے بارے میں معذرت پیش کرتا ہوں،ـ میں نے انہیں حکم دیا تھا کہ یہ مال کمزور مہاجرین میں تقسیم کریں، لیکن انہوں نے یہ مال تندرست، اصحاب مرتبہ اور چالاک لوگوں میں تقسیم کر دیا، اس لیے میں یہ ذمہ داری ان سے لے کر سیدنا ابو عبیدہ بن جراح ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو سونپتا ہوں،یہ سن کر ابو عمر بن حفص بن مغیرہ نے کہا: اللہ کی قسم! اے عمر بن خطاب! آپ کا عذر معقول نہیں، آپ نے اس عامل کو معزدل کیا ہے جسے اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مقرر فرمایا تھا، آپ نے اس تلوار کو نیام میں بند کیا ہے، جسے اللہ کے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لہرایا تھا اور آپ نے اس جھنڈے کو لپیٹ دیا ہے، جس کو اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نصب کیا تھا اور آپ نے یہ کام کر کے اپنے چچا زاد سے قطع رحمی کی ار اس سے حسد کا ثبوت دیا ہے۔ یہ باتیں سن کر سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تم اپنے اس چچازاد کے قریبی رشتہ دار ہو اور نو عمر ہو، سو تم اس کے حق میں طرف داری کر رہے ہو۔
Haidth Number: 12222
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۲۲۲۲) تخریج: رجالہ ثقات، اخرجہ مختصرا النسائی فی الکبری : ۸۲۸۳، والطبرانی فی الکبیر : ۲۲/ ۷۶۱ (انظر: ۱۵۹۰۵)

Wazahat

فوائد:… سیدنا خالد بن ولید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اپنی جانبازی اور شجاعت کے لحاظ سے تاج اسلام کے گوہر شاہوار اور اپنے زمانہ کے نہایت ذی عزت اور صاحب اثر بزرگ تھے۔ عبدالملک بن عمیر کہتے ہیں: اِسْتَعْمَلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أَبَا عُبَیْدَۃَ بَنَ الْجَرَّاحِ عَلَی الشَّامِ وَعَزَلَ خَالِدَ بْنَ الْوَلِیْدِ، قَالَ: فَقَالَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیْدِ: بُعِثَ عَلَیْکُمْ أَمِیْنُ ھٰذِہِ الْأُمَّۃِ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((أَمِیْنُ ھٰذِہِ الْأُمَّۃِ أَبُوْ عُبَیْدَۃَ بْنُ الْجَرَّاح۔)) فَقَالَ أَبُوْ عُبَیْدَۃَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((خَالِدٌ سَیْفٌ مِنْ سُیُوْفِ اللّٰہِ۔ عَزَّوَجَلَّ۔ نِعْمَ فَتَی الْعَشِیْرَۃِ۔)) … سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدنا ابو عبیدہ بن جراح ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو شام کا گورنر بنا کر بھیجا اور سیدنا خالد بن ولید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو معزول کر دیا۔ سیدنا خالد نے کہا: اس امت کے امین کو تمھارا امیر بنا کر بھیجا گیا ہے، میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اس امت کا امین ابو عبیدہ بن جراح ہے۔ سیدنا ابوعبیدہ نے کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے سنا: خالد، اللہ تعالیٰ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے اور وہ اپنے قبیلے کا بہترین نوجوان ہے۔ (مسند حمد: ۴/۹۰) سبحان اللہ! صحابہ کرام آپس میں شیر و شکر تھے، وہ ایک دوسرے کے بارے میں صاف دل تھے۔ دیکھئے کہ جب سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بعض وجوہات کی بنا پر عظیم فاتح اور سپہ سالارسیدنا خالد بن ولید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو معزول کیا توانھوں نے خلیفۂ وقت کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے اپنے عہدے پر فائز ہونے والے کا کس والہانہ انداز میں استقبال کیا اور پھر انھوں نے سیدنا خالد کی عظمتوں کو کس انداز میں بیان کیا۔ یہ حقیقی محبتوں کے نتائج ہیں۔ خالد بن ولید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ شہرۂ آفاق اور انتہائی معروف سپہ سالار ِ اسلام ہیں، بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ وہ بالعموم فتوحات کے سب سے زیادہ شہرت یافتہ سپہ سالار ہیں، ان کی یہ شہرت اور ناموری ان کے کارہائے نمایاں کا نتیجہ ہے جو انھوں نے اپنی فطری اور نہایت ممتاز خصوصیات کی بدولت انجام دیے۔ وہ بلاکے ذہین، ہوشیار اور زود فہم تھے۔ چھوٹے بڑے کل تیس معرکوں میں شریک ہوئے ، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی حیات ِ مبارکہ میں انھوں نے جنگوں میں ایسی بیدار مغزی، باتدبیری، منصوبہ سازی، بے باکی، دلیری اور بہادری سے کام لیا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو اللہ کی تلوار کا لقب دے دیا۔ اَلْفَصْلُ الرَّابِعُ وَمِنْ ذٰلِکَ طَاعُوْنُ عَمْوَاسَ بِالشَّامِ سَنَۃَ ثَمَانَ عَشَرَۃَ فصل چہارم: ۱۸ھ میں شام میں پڑنے والے طاعونِ عمواس کا تذکرہ عبداللہ بن عامر بن ربیعہ سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب شام کے لیے روانہ ہوئے، جب ’ ’ سرغ مقام تک پہنچے تو ان کو اطلا ع ملی کہ شام میں (طاعون کی) وبا پھیل چکی ہے۔ سیدنا عبدالرحمن بن عوف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان کو بتلایا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب تم سنو کہ کسی علاقہ میں طاعون کی وبا پھیلی ہوئی ہے تو وہاں نہ جاؤ اور جب تم کسی علاقے میں موجود ہو اور وہاں یہ وبا پھیل جائے تو اس سے ڈر کر وہاں سے نہ نکلو۔ یہ حدیث سن کر سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اللہ کا شکر ادا کیا اور سرغ مقام سے واپس لوٹ گئے۔