Blog
Books
Search Hadith

فصل پنجم: سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی تاریخ شہادت، ان کی جنازہ، دفن اور مدتِ خلافت کا بیان

۔ (۱۲۲۸۵)۔ عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ، قَالَ: وَقُتِلَ عُثْمَانُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ، لِثَمَانِ عَشْرَۃَ مَضَتْ مِنْ ذِی الْحِجَّۃِ، سَنَۃَ خَمْسٍ وَثَلَاثِینَ، وَکَانَتْ خِلَافَتُہُ ثِنْتَیْ عَشْرَۃَ سَنَۃً إِلَّا اثْنَیْ عَشَرَ یَوْمًا۔ (مسند احمد: ۵۴۵)

ابو معشر سے مروی ہے کہ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اٹھارہ ذوالحجہ ۳۵ھ کو شہید ہوئے اور ان کی مدت خلافت بارہ دن کم بارہ سال تھی۔
Haidth Number: 12285
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۲۲۸۵) تخریج: اسنادہ منقطع، ابو معشر نجیح بن عبد الرحمن ضعیف (انظر: ۵۴۵)

Wazahat

فوائد:… حافظ ابن کثیر نے البدایۃ والنھایۃ میں کہا: سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خلافت بارہ دن کم بارہ برس تھی۔ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے بارہ سالہ خلافت میں ابتدائی چھ سال کامل امن و امان سے گزرے، فتوحات کی وسعت، مالِ غنیمت کی فراوانی، وظائف کی زیادتی، زراعت کی ترقی اور حکومت کے عمدہ نظم ونسق نے ملک میں تموّل، فارغ البالی اور عیش و تنعّم کو عام کر دیا تھا، یہاں تک کہ بعض متقشف صحابہ ایام نبوت کی سادگی اور بے تکلفی کو یاد کر کے اس زمانہ کی ثروت اور سامانِ تعیش کو دیکھ کر حد درجہ غمگین تھے کہ اب مسلمانوں کے اس دنیاوی رشک و حسد کا وقت آ گیا ہے، جس کی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پیشین گوئی کی تھی۔ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے آخری زمانہ میں جو فتنہ و فساد برپا ہوا، اس کی حقیقت یہی ہے کہ دولت مندی اور تموّل کی کثرت نے مسلمانوں میں بھی اس کے وہ لوازم پیدا کر دیئے جو ہر قوم میں ایسی حالت میں پیدا ہو جاتے ہیں اور بالآخر ان کے ضعف اور انحطاط کا سبب بن جاتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ اس فتنے کی پیدائش کے بعض اوراسباب بھی تھے، بطورِ مثال: ۱۔ صحابۂ کرام کی تعداد کم ہو گئی تھی۔ ۲۔ صدیقی اور فاروقی عہد میں مسلمانوں کی پسندیدگی سے امامت و خلافت کے لیے قریش کا خاندان مخصوص ہو گیا تھا، لیکن بعد میں قریشی نوجوان اس کو اپنا حق سمجھ کر دوسرے عرب قبیلوں کو اپنا محکوم سمجھنے لگے، جبکہ دوسرے قبائل کے لوگ اس دعوے کے اسیر ہو گئے کہ ممالک کی فتوحات ان کی تلواروں کی کمائی ہے۔ ۳۔ مفتوحہ اقوام میں مسلمانوں کے خلاف انتقام کا جذبہ موجود تھا، جس کی وجہ سے وہ سازشیں کرتے رہتے تھے۔ ۴۔ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نرم خو تھے اور اکثر جرائم کو بردباری اور حلم سے ٹال دیا کرتے تھے، لیکن اس سے شریروں کے حوصلے بڑھتے گئے ۵۔ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اموی تھے، اس لیے فطرتاً ان کے جذبات اپنے اہل خاندان کے ساتھ خیر خواہانہ تھے اور آپ ان کوفائدہ پہنچانا چاہتے تھے اور اپنے ذاتی مال سے ان کی امداد فرمایا کرتے تھے، لیکن شریروں نے یہ الزام عام کرنے کی کوشش کی کہ سرکاری خزانے کو بنو امیہ پر لٹایا جا رہا ہے۔ ۶۔ پہلے دو ادوار میں کارکن اور عمال میں فرمانبرداری کا جو جذبہ تھا، اب اس میں کمی آتی جا رہی تھی۔ ۷۔ غیر قوموں کی عورتیں اور باندیاں کئی فتنوں کا باعث بنیں۔ ۸۔ بنو ہاشم، بنو امیہ کے عروج و ترقی کو پسند نہیں کرتے تھے۔ ۹۔ مجوسی چاہتے تھے کہ کہ ایسا انقلاب پیدا کیا جائے کہ جس میں ان کی مدد سے حکومت ایسے عام خاندان میں منتقل ہو کہ جس سے وہ بہتر بہتر حقوق اور مراعات حاصل کر سکیں۔ ۱۰۔ یہودی چاہتے تھے کہ مسلمانوں میں ایسا افتراق پیدا کر دیا جائے کہ ان کی قوت پاش پاش ہو جائے۔ یہ مختلف اغراض تھیں اور ہر جماعت اپنی غرض کے لیے کوشش میں مصروف تھی، اس لیے خفیہ ریشہ دوانیاں شروع ہو گئیں، عمال کے خلاف سازشیں ہونے لگیں اور خود امیر المومنین کو بد نام کرنے کی کوشش شروع ہوئی، سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان فتنوں کو دبانا چاہا، لیکن یہ آگ ایسی لگی تھی کہ جس کا بجھانا آسان نہ تھا، فتنہ پردازوں کا دائرۂ عمل روز بروز وسیع ہوتا گیا، یہاں تک کہ تمام ملک میں ایک خفیہ جماعت پیدا ہو گئی، جس کا مقصد فتنہ و فساد تھا۔ بالآخر معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ مفسدوں اور باغیوں نے کاشانۂ خلافت کا نہایت سخت محاصرہ کر لیا، جو چالیس روز تک مسلسل قائم رہا، اس عرصہ میں پانی اندر لے جانا بھی جرم تھا، مفسدین کے قلوب نورِ ایمان سے خالی ہو چکے تھے، سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے باغیوں کو متعدد بار سمجھانے کی کوشش کی، لیکن بے سود، کسی چیز کا کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا، آخر میں باغی یہ دیکھ کر کہ حج کا موسم چند روز میں ختم ہو جاتا ہے اور اس کے ختم ہوتے ہی لوگ مدینہ کا رخ کریں گے اور موقع ہاتھ سے نکل جائے گا، خلیفۃ المسلمین کے قتل کے مشورے کرنے لگے۔ جان نثاروں کے مشوروں اور اجازت طلبی کا سلسلہ شروع ہوا، لیکن سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا ایک ہی نظریہ تھا کہ وہ صبر کا دامن تھام کر رکھیں گے، چونکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی پیش گوئی کی وجہ سے ان کو یقین تھا کہ ان کی شہادت مقدر ہو چکی ہے، پس وہ صبر و استقامت کے پہاڑ بنے رہے۔ باغیوں نے مکان پر حملہ کر دیا اورجمعہ کے روز عصر کے وقت شہادت کا واقعہ پیش آیا، دو دن تک لاش بے گور و کفن پڑی رہی، حرم رسول میں قیامت برپا تھی، باغیوں کی حکومت تھی، ان کے خوف سے کسی کو اعلانیہ دفن کرنے کی ہمت نہ ہوتی تھے، ہفتہ کا دن گزر کر رات کو چند آدمیوں نے ہتھیلی پر جان رکھ کر تجہیز و تکفین کی ہمت کی اور غسل دیئے بغیر اسی طرح خود آلود پیراہن میں شہید مظلوم کا جنازہ اٹھایا اور کل سترہ افراد نے کابل سے مراکش تک کے فرمانروا کی جنازہ ادا کی اور جنت البقیع کے پیچھے حش کوکب میں اس حلم و بردباری کے مجسمہ اور بے کسی و مظلومی کے پیکر کو سپرد خاک کیا، بعد میں یہ دیوار توڑ کر جنت البقیع میں داخل کر لیا گیا۔ إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ۔ تفصیلات کے لیے تاریخی کتب کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔