Blog
Books
Search Hadith

فصل دوم: سید نا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے مناقب کے بارے میں متفرق احادیث

۔ (۱۲۳۰۳)۔ عَنْ مَیْمُونٍ أَبِی عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ: قَالَ زَیْدُ بْنُ أَرْقَمَ وَأَنَا أَسْمَعُ: نَزَلْنَا مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِوَادٍ یُقَالُ لَہُ وَادِی خُمٍّ، فَأَمَرَ بِالصَّلَاۃِ فَصَلَّاہَا بِہَجِیرٍ، قَالَ: فَخَطَبَنَا وَظُلِّلَ لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِثَوْبٍ عَلٰی شَجَرَۃِ سَمُرَۃٍ مِنَ الشَّمْسِ، فَقَالَ: ((أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَوَلَسْتُمْ تَشْہَدُونَ أَنِّی أَوْلٰی بِکُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ نَفْسِہِ۔)) قَالُوا: بَلٰی، قَالَ: ((فَمَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَإِنَّ عَلِیًّا مَوْلَاہُ، اَللّٰہُمَّ عَادِ مَنْ عَادَاہُ وَوَالِ مَنْ وَالَاہُ۔))(مسند احمد: ۱۹۵۴۰)

سیدنا زید بن ارقم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ساتھ ایک وادی میں اترے، اس کو وادی خُم کہتے تھے، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نماز کا حکم دیا اور سخت گرمی میں ظہر کی نماز پڑھائی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں خطبہ دیا اور دھوپ سے بچانے کے لیے کیکر کے درخت پر کپڑا ڈال کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر سایہ کیا گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم جانتے نہیں ہو، یا کیا تم یہ گواہی نہیں دیتے کہ میں ہر مومن کے اس کے نفس سے بھی زیادہ قریب ہوں؟ صحابہ نے کہا: جی کیوں نہیں، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں جس کا دوست ہوں، علی بھی اس کا دوست ہے، اے اللہ! تو اس سے دشمنی رکھ، جو علی سے دشمنی رکھتا ہے اور تو اس کو دوست رکھ، جو علی کو دوست رکھتا ہے۔
Haidth Number: 12303
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۲۳۰۳) تخریج: حدیث صحیح، اخرجہ البزار: ۲۵۳۷، والطبرانی فی الکبیر : ۵۰۹۲، والنسائی فی الکبری : ۸۴۶۹ (انظر: ۱۹۳۲۵)

Wazahat

فوائد:… غدیر خم: علامہ سندھی نے کہا: یہ گھنے اور بکثرت درختوں والی جگہ ہے، جو جحفہ سے تین میل کے فاصلے پر ہے، اس کے پاس ایک مشہور جوہڑ ہے، وہ اسی جگہ کی طرف منسوب ہوتا ہے۔ اس میں سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی فضیلت اور ان کی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے مناسبت کا بیان ہے۔ ملا علی قاری نے کہا: اس کا معنی یہ ہے: میں جس سے دوستی کرتا ہوں، علی بھی اس سے دوستی رکھتا ہے یا جو مجھے دوست بنائے گا، علی اس کو دوست بنائے گا۔ لفظ مولٰی کا اطلاق کئی معانی پر ہوتا ہے، جیسے ربّ، مالک، سیّد، مُنعِم، جس پر انعام کیاجائے، آزاد کنندہ، آزاد شدہ، غلام، ناصر، محِب، تابع، پڑوسی، چچا زاد، حلیف، عقد والا، وغیرہ۔ امام شافعی نے کہا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی مراد اسلام کی دوستی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ حدیث بیان کرنے کا سبب یہ ہے کہ سیدنا اسامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: تم میرے دوست نہیں ہو، میرے دوست تو رسول اللہ ہیں۔ لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کا ردّ کرتے ہوئے فرمایا: میں جس کا دوست ہوں، علی بھی اس کا دوست ہے۔ شیعہ لوگوں کا خیال ہے کہ لفظ مولٰی کے معانی متصرف کے ہیں، یعنی جن امور میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو تصرف کرنے کا حق حاصل تھا، وہ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بھی حاصل تھا، مومنوں کے معاملات بھی ایک چیز تھی، اس لیے سیدنا علی بھی امام ہوں گے۔ لیکن طیبی نے کہا: ولایت کو اس امامت پر محمول نہیں کیا جا سکتا، جس کا معنی مومنوں کے امور میں تصرف کرنا ہے، کیونکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنی زندگی میں مستقل اور واحد متصرف تھے( اس وصف میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ کوئی دوسرا شریک نہ تھا)، اس لیے ولایت کو محبت اور اسلام دوستی پر محمول کرنا چاہیے۔ (ملخص از مرقاۃ المفاتیح: ۱۰/ ۴۶۳، ۴۶۴) امام البانی ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ کہتے ہیں: شیعہ لوگ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے بارے میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی یہ حدیث نقل کرتے ہیں: ((اِنَّہُ خَلِیْفَتِیْ مِنْ بَعْدِیْ۔)) … میرے بعد وہ خلیفہ ہوں گے۔ لیکن یہ روایت کسی طرح بھی صحیح نہیںہے، بلکہ یہ ان شیعوں کی باطل روایات میں سے ہے۔ تاریخی واقعہ بھی اس کی تکذیب پر دلالت کرتا ہے، کیونکہ اگر یہ حدیث آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا قول ہوتی تو ایسے ہی واقع ہوتا کہ سب سے پہلے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ خلیفہ بنتے اور سیدنا ابو بکر صدیق ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ خلیفہ نہ بنتے، کیونکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا فرمان وحی ہوتا ہے اور وحی میں جو بات جیسے بیان کی جاتی ہے، وہ اسی طرح واقع ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کی مخالفت بھی نہیں کرتا۔ میں نے ضعیفہ (۴۹۲۳، ۴۹۳۲) میں اس قسم کی مرویات ذکر کر کے ان کا بطلان واضح کیا ہے۔ (صحیحہ: ۱۷۵۰)