Blog
Books
Search Hadith

ان لوگوں کی دلیل کا بیان جو سننِ رواتب کے فوت جانے کی صورت میں ان کی قضاء نہ دینے کے قائل ہیں

۔ (۱۲۴۱)۔عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَؓ قَالَتْ: صَلّٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْعَصْرَ ثُمَّ دَخَلَ بَیْتِیْ فَصَلّٰی رَکْعَتَیْنِ، فَقُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! صَلَّیْتَ صَلَاۃً لَمْ تَکُنْ تُصَلِّیْہَا؟ فَقَالَ: ((قَدِمَ عَلَیَّ مَالٌ فَشَغَلَنِیْ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: قَدِمَ عَلَیَّ وَفْدُ بَنِیْ تَمِیْمٍ فَحَبَسُوْنِیْ) عَنِ الرَّکْعَتَیْنِ کُنْتُ أَرْکَعُہُمَا بَعْدَ الظُّہْرِ فَصَلَّیْتُہُمَا الْآنَ۔)) فَقُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! أَفَنَقْضِیْہِمَا اِذَا فَاتَتَا؟ قَالَ: ((لَا۔)) (مسند أحمد: ۲۷۲۱۳)

سیدہ ام سلمہ ؓ سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے نمازِ عصر ادا کی، پھر میرے گھر تشریف لائے اور دو رکعتیں ادا کیں، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ نے ایسی نماز پڑھی، جو آپ نہیں پڑھتے تھے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: کچھ مال آ گیا تھا، بس اس نے مشغول کیے رکھا، ایک روایت میں ہے: میرے پاس بنو تمیم کا وفد آیا تھا، اس نے مجھے ان دو رکعتوں سے روک دیا، جو میں ظہر کے بعد پڑھا کرتا تھا، پس میں نے ان کو اب ادا کیا ہے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اگر یہ دو رکعتیں ہم سے رہ جائیں تو ہم ان کی قضائی دیا کریں؟ آپ نے فرمایا: جی نہیں۔
Haidth Number: 1241
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۲۴۱) تخریج: صلاۃ النبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ رکعتین بعد العصر صحیح، وھذا اسناد اختلف فیہ۔ أخرجہ ابو یعلی: ۷۰۲۸، وابن حبان: ۲۶۵۳، والطحاوی فی شرح معانی الآثار : ۱/ ۳۰۶ ، وقولہ: افنقضیھما، قال: لا زیادۃ ضعیفۃ تفرد بھا یزید بن ہارون (انظر: ۲۶۶۷۸)

Wazahat

فوائد:… تخریج کے تحت وضاحت ہے کہ عصر کے بعد نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ سے عصر کے بعد دو رکعت پڑھنا ثابت ہے۔ البتہ حدیث کے آخر میں رہی ہوئی سنن کی قضائی نہ دینے والی بات سنداً ثابت ہیں۔ اس لیے عصر کے بعد سورج زرد ہونے سے پہلے سنن کی قضائی بھی ٹھیک ہے اور ویسے بھی نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ (عبداللہ رفیق)