Blog
Books
Search Hadith

باب سوم: سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے بعض خطبات کا بیان

۔ (۱۲۳۳۲)۔ عَنْ إِسْمَاعِیلَ، حَدَّثَنَا قَیْسٌ، قَالَ: لَمَّا أَقْبَلَتْ عَائِشَۃُ بَلَغَتْ مِیَاہَ بَنِی عَامِرٍ لَیْلًا نَبَحَتِ الْکِلَابُ، قَالَتْ: أَیُّ مَائٍ ہٰذَا؟ قَالُوْا: مَائُ الْحَوْأَبِ، قَالَتْ: مَا أَظُنُّنِی إِلَّا أَنِّی رَاجِعَۃٌ، فَقَالَ بَعْضُ مَنْ کَانَ مَعَہَا: بَلْ تَقْدَمِینَ فَیَرَاکِ الْمُسْلِمُونَ، فَیُصْلِحُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ ذَاتَ بَیْنِہِمْ، قَالَتْ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ لَنَا ذَاتَ یَوْمٍ: ((کَیْفَ بِإِحْدَاکُنَّ تَنْبَحُ عَلَیْہَا کِلَابُ الْحَوْأَبِ۔)) (مسند احمد: ۲۴۷۵۸)

قیس سے مروی ہے کہ جب سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا (مدینہ منورہ سے بصرہ جاتے ہوئے) بنی عامر کے پانیوں تک پہنچیں تو کتے بھونکنے لگے، انہوں نے کہا: یہ کون سی جگہ ہے؟ لوگوںنے کہا: یہ حوأب کے پانی کا مقام ہے، انھوں نے کہا: میرا خیال تو یہی ہے کہ میں واپس لوٹ جاؤں، لیکن ان کے بعض ہم سفروں نے کہا: اب آپ واپس نہ جائیں، بلکہ آگے بڑھیں، ممکن ہے کہ مسلمان آپ کو دیکھیں اور اللہ تعالیٰ ان کے مابین صلح کر ادے گا، انہوں نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک روز ہم سے فرمایا تھا کہ تم میں سے ایک کی اس وقت کیا حالت ہوگی، جب اس پرحوأب کے کتے بھونکیں گے۔
Haidth Number: 12332
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۲۳۳۲) تخریج: اسنادہ صحیح، اخرجہ ابن ابی شیبۃ: ۱۵ ۲۵۹، وابویعلی: ۴۸۶۸، وابن حبان: ۶۷۳۲، والحاکم: ۳/ ۱۲۰ (انظر: ۲۴۲۵۳)

Wazahat

فوائد:… اس حدیث کے درج ذیل شاہد سے مفہوم کی وضاحت ہو جاتی ہے: سیدنا عبد اللہ بن عباس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے بیویوں سے فرمایا: ((لَیْتَ شَعْرِیْ! أَیَّتُکُنَّ صَاحِبَۃُ الْجَمَلِ الْأَدْبَبِ، تَخْرُجُ فَیَنْبَحُھَا کِلَابُ الْحَوْأَبِ، یُقْتَلُ عَنْ یَمِیْنِھَا وََعْن یَسَارِھَا قَتْلٰی کَثِیْرٌ، ثُمَّ تَنْجُوْ بَعْدَ مَا کَادَتْ؟!))… کاش مجھے پتہ چل جاتا! تم میں کون ہے ، جو ایسے اونٹ پر سوار ہو گی، جس کے چہرے کے بال بہت زیادہ ہوں گے، وہ نکلے گی اور اس پر حوأب کے کتے بھونکیں گے، اس کے دائیں اور بائیں جانب لوگوں کی کثیر تعداد کو قتل کر دیا جائے گا، وہ خود بال بال بچ جائے گی۔ (قال الالبانی: رواہ البزار فی کشف الاستار: ۴/ ۹۴/ ۳۲۷۳، ۳۲۷۴ ورجالہ ثقات کما قال الھیثمی فی مجمع الزوائد : ۷/۲۳۴، والحافظ فی فتح الباری : ۱۳/۴۵) امام البانی ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ رقمطراز ہیں: خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے اور اس کے متن میں کوئی اشکال نہیں ہے، بخلاف استاد سعید افغانی ہے۔ اس حدیث سے زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ جب سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو حوأب کا علم ہوا تو ان کو واپس چلا جانا چاہیے تھا، جب کہ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوٹی نہیں تھیں، اس چیز کو بھی ام المومنین کی طرف منسوب کرنا ان کے شایانِ شان نہیں ہے۔ ہمارا جواب یہ ہے کہ ضروری نہیں کہ جامع الصفات اور باکمال آدمی سے وہی کچھ صادر ہو، جو اس کی ذات کو زیب دیتا ہو، کیونکہ معصوم وہی ہے، جس کو اللہ تعالیٰ بچا کر رکھے۔ اہل السنّہ کو چاہیے کہ وہ محترم شخصیات کی شان میں غلوّ نہ کیا کریں ، جیسا کہ شیعوں نے اپنے اماموں کے حق میں کیا اور انھیں معصوم قرار دیا۔ ہمار ا خیال ہے کہ اس قافلے کے ساتھ نکلنا سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی خطا تھی، اسی لیے جب ان کو حوأب کے بارے میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا ارشاد یاد آیا تو انھوں نے واپس جانے کا ارادہ کیا، لیکن سیدنا زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان کو یہ کہتے ہوئے مطمئن کر دیا: ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے ذریعے لوگوں میں صلح کروا دیں۔ … … ۔ امام زیلعی (نصب الرایۃ: ۴/ ۶۹۔ ۷۰) میں کہتے ہیں: سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے (اس خطا) پر ندامت کا اظہار کیا تھا، جیسا کہ ابن عبد البر نے (کتاب الاستیعاب) میں روایت کی ہے کہ … سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: ابو عبد الرحمن! تو نے مجھے نکلنے سے روک کیوں نہیں لیا تھا؟ انھوں نے کہا: میں نے دیکھا کہ ابن زبیر آپ پر غالب آ گئے تھے۔ پھر سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: اللہ کی قسم! اگر تم مجھے روک لیتے تو میں نہ جاتی۔ اس اثر کی ایک دوسری سند بھی ہے، جیسا کہ امام ذہبی نے (سیر اعلام النبلائ: صـ ۷۸۔ ۷۹) میں کہا: اور یہ بھی کہا کہ قیس نے کہا: پہلے پہل تو سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا یہ خیال تھا کہ ان کو ان کے گھر میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ دفن کیا جائے گا، لیکن (جنگ ِ جمل کے بعد) انھوں نے کہا: میرے اس فعل (جرم) کی وجہ سے مجھے دوسری امہات المومنین کے ساتھ دفن کر دینا۔ پھر ان کو بقیع میں دفن کیا گیا۔ میں (قیس) کہتا ہوں: سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی مراد جنگ ِ جمل والا واقعہ تھا، بعد میں ان کو اس پر بہت ندامت ہوئی تھی اور انھوں نے اس سے توبہ کی تھی۔ حالانکہ ان کا ارادہ خیر و بھلائی کا تھا، جیسا کہ سیدنا طلحہ بن عبید اللہ، سیدنا زبیر بن عوام اور کبار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جماعت نے اجتہاد کیا تھا، اللہ تعالیٰ سب سے راضی ہو جائے۔ (آمین) امام بخاری اپنی صحیح میں بیان کرتے ہیں: ابو وائل نے کہا: جب سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مدد مانگنے کے لیے سیدنا عمار اور سیدنا حسن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کو کوفہ کی طرف بھیجا، تو سیدنا عمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اپنے خطبے میںکہا: میں جانتا ہوں کہ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ دنیا میں بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیوی تھیں اور آخرت میں بھی ہوں گی، لیکن اللہ تعالیٰ تمہیں آزمانا چاہتا کہ تم سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی پیروی کرتے ہو یا سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی۔ سیدنا عمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا یہ خطبہ جنگ ِ جمل سے پہلے کا ہے، وہ لوگوں کو سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے ساتھ نکلنے سے روکنا چاہتے تھے۔ (صحیحہ: ۴۷۴)