Blog
Books
Search Hadith

باب پنجم: جنگ صفین اور سیدنا عمار بن یاسر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی شہادت اس باب میں کئی فصلیں ہیں فصل اول: سیدنا عمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی شجاعت کا بیان اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا ان کے بارے میں فرمانا کہ ایک باغی گروہ عمار کو قتل کرے گا

۔ (۱۲۳۴۹)۔ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ زِیَادٍ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْحَارِثِ قَالَ: إِنِّی لَأَسِیرُ مَعَ مُعَاوِیَۃَ فِی مُنْصَرَفِہِ مِنْ صِفِّینَ بَیْنَہُ وَبَیْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ: فَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ: یَا أَبَتِ! مَا سَمِعْتَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ لِعَمَّارٍ: ((وَیْحَکَیَا ابْنَ سُمَیَّۃَ، تَقْتُلُکَ الْفِئَۃُ الْبَاغِیَۃُ؟)) قَالَ: فَقَالَ عَمْرٌو لِمُعَاوِیَۃَ: أَلَا تَسْمَعُ مَا یَقُولُ ہٰذَا؟ فَقَالَ مُعَاوِیَۃُ: لَا تَزَالُ تَأْتِینَا بِہَنَۃٍ، أَنَحْنُ قَتَلْنَاہُ إِنَّمَا قَتَلَہُ الَّذِینَ جَائُ وْا بِہِ۔ (مسند احمد: ۶۴۹۹)

عبداللہ بن حارث کہتے ہیں: جنگ صفین سے واپسی پر میں سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا عمرو بن العاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے درمیان چلا آرہا تھا، سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: ابا جان! کیا آپ نے سنا نہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا عمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا تھا کہ اے ابن سمیہ! افسوس ایک باغی گروہ تجھے قتل کرے گا۔ سیدنا عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: آپ سن رہے ہیں کہ یہ کیا کہہ رہا ہے؟ سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: آپ ہمیشہ باعث ِ تکلیف بات ہی کرتے ہیں؟ کیا ہم نے اس کو قتل کیا ہے؟ اسے تو ان لوگوں نے قتل کیاہے، جو اسے میدان کارزار میں لے کر آئے ہیں۔
Haidth Number: 12349
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۲۳۴۹) تخریج: اسنادہ صحییح، اخرجہ النسائی فی خصائص علی : ۱۶۸، والطبرانی فی الکبیر :۱۹/ ۷۵۹، والبزار: ۳۲۸۱ (انظر: ۶۴۹۹)

Wazahat

ہے کہ سلف صالحین نے عقائد کے موضوع پر لکھی گئی کتب میں بھی اس حقیقت کو واضح کیا ہے، گویا کہ صحابہ کرام کی عدالت و صداقت کو تسلیم کرنا ہمارے عقیدے کا مسئلہ ہے۔ اس مقام پر بطور مثال صرف عقائد کی دو کتب کا حوالہ پیش کیا جاتا ہے۔ قال ابن الصلاح والنووی: الصحابۃ کلھم عدول وکان للنبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مائۃ الف و اربعۃ عشر الف صحابی عند موتہ والقرآن والاخبار مصرحان بعدالتھم وجلالتھم ولما جری بینھم محامل لا یحتمل ذکرھا ھذا الکتاب۔ (الصوائق المحرقۃ، ابن الحجر الھیثمی: ۲/ ۶۴۰) یعنی: حافظ ابن صلاح اور امام نووی نے کہا: تمام کے تمام صحابہ عادل ہیں اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وفات کے وقت ایک لاکھ چودہ ہزار صحابہ موجود تھے، قرآن اور روایات ان کی عدالت اور جلالت کی وضاحت کر رہے ہیں اور جو کچھ ان میں واقع ہوا، اس کے کئی احتمالات ہیں، اس کتاب میں ان کو ذکر نہیں کیا جا سکتا۔ قال ابن حجر: اتفق اھل السنۃ علی ان جمیع الصحابۃ عدول ولم یخالف فی ذالک الا شذوذ من المبتدعۃ۔ (رؤیۃ النبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لربہ، محمد بن خلیفۃ التمیمی: ۱/ ۳۵۶) حافظ ابن حجر نے کہا: اہل سنت کا اتفاق ہے کہ تمام صحابہ عادل ہیں اور اس میں چند بدعتیوں کے علاوہ کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ دوسری گزارش یہ ہے کہ یہ حقیقت بھی قابل قبول ہے کہ معصومیت صرف انبیاء و رسل کی صفت ہے، لیکن اس امر کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ عام امت کی بہ نسبت صحابہ کرام کی نیکی کا معیار اور خطا پر گرفت کا انداز کچھ اور ہے، ہم صرف دو مثالیں دینے پر اکتفا کریں گے۔ عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ، قَالَ: بَلَغَ مُصْعَبَ بْنَ الزُّبَیْرِ عَنْ عَرِیْفِ الْأَنْصَارِ شَیْئٌ، فَھَمَّ بِہٖ فَدَخَلَ عَلَیْہِ أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ، فَقَالَ لَہٗ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((اِسْتَوْصُوْا بِالْأَنْصَارِ خَیْرًا۔ أَوْ قَالَ: مَعْرُوْفًا۔ اِقْبَلُوْا مِنْ مُّحْسِنِھِمْ وَتَجَاوَزُوْا عَنْ مُسِیْئِھِمْ۔)) فَأَلْقٰی مُصْعَبٌ نَفْسَہٗ عَنْ سَرِیْرِہٖ، وَأَلْزَقَ خَدَّہٗ بِالْبِسَاطِ، وَقَالَ: أَمْرُ رَسُوْل ِاللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلَی الرَّأْسِ وَالْعَیْنِ، فَتَرَکَہٗ۔ (مسند أحمد: ۳/۲۴۱) علی بن زید کہتے ہیں کہ انصار کے سردار کی طرف سے مصعب بن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو کوئی (قابل اعتراض) بات پہنچی‘ انھوں نے اسے برا بھلا کہنے کا ارادہ کیا‘ اتنے میں سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آگئے اور اسے کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے سنا کہ: انصار صحابہ کے ساتھ خیرو بھلائی کرنے کی وصیت قبول کرو‘ ان میں سے نیکی کرنے والے سے حسنِ سلوک کرو اور غلطی کرنے والے سے درگزر کرو۔ (یہ سن کر) سیدنا مصعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اپنے آپ کو چارپائی سے نیچے گرا دیا اور اپنے رخسار کو زمین پر رکھ دیا اور کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا ارشاد سر آنکھوں پر۔ پھر انصاری کو چھوڑ دیا۔ اس حدیث میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے صحابہ کے بارے میں بالعموم اور انصار کے بارے میں بالخصوص ایک قاعدہ کلیہ پیش کر دیا کہ ان کے نیکوکار افراد سے حسنِ سلوک اور احترام و اکرام والا معاملہ کیا جائے اور اگر کسی میں بتقاضۂ بشریت کوئی عیب نظر آئے تو اس کو موضوعِ بحث ہی نہ بنایا جائے اور اس کے معاملے کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کر کے خاموشی اختیار کی جائے‘ ظن غالب یہ ہے کہ ان کی حسنات و خیرات کے سمندر ان کی بشری لغزشوں کے قطروں پر غالب آ جائیں گے۔ سیدنا مصعب بن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی احادیث کے سامنے عاجزی و انکساری کا انداز دیکھیں‘ ممکن ہے کہ انہی جذبات کی قدر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے دین کو سہارا دینے اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا دست و بازو بننے کے لئے ان نفوسِ قدسیہ کا انتخاب کیا اور ان کی عیب جوئی کرنے سے منع کر دیا۔ عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((لَا تَسُبُّوْا اَحَدًا مِنْ اَصْحَابِیْ، فَاِنَّ اَحَدَکُمْ لَوْ اَنْفَقَ مِثْلَ اُحَدٍ ذَھَبًا، مَا اَدْرَکَ مُدَّ اَحَدِھِمْ وَلَا نَصِیْفَہُ۔)) (صحیح بخاری: ۳۶۷۳، صحیح مسلم: ۲۵۴۰) سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے صحابہ میں سے کسی کو برا بھلا مت کہو، اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کر دے تو وہ اُن کے خرچ کیے ہوئے ایک مد یا نصف مد کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔ ایک مُدّ کا وزن 525گرام ہوتا ہے، نصف مد کا وزن 262گرام ہوا۔ یہ صحابہ کرام کی نیکیوں کا معیار ہے کہ احد پہاڑ کے برابر کا سونا ان کی صدقہ کی ہوئی گندم، کھجور اور جو کی اس معمولی مقدار کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: کَانَ بَیْنَ خَالِدِ بْنِ الْوَلِیْدِ وَبَیْنَ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَوْفٍ کَلَامٌ، قَالَ خَالِدٌ لِعَبْدِ الرَّحْمٰنِ : تَسْتَطِیْلُوْنَ عَلَیْنَا بِاَیَّامٍ سَبَقْتُمُوْنَا بِھَا؟ فَبَلَغَنَاأَنَّ ذٰلِکَ ذُکِرَ لِلنَّبِيِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَقَالَ: ((دَعُوْا لِيْ أَصْحَابِيْ، فَوَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِہٖ لَوْ أَنْفَقْتُمْ مِثْلَ اُحُدٍ أَوْ مِثْلَ الْجِبَالِ ذَھَبًا مَا بَلَغْتُمْ أَعْمَالَھُمْ۔)) (مسند احمد: ۳/ ۲۶۶) سیدناانس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: سیدنا خالد بن ولید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا عبد الرحمن بن عوف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے درمیان کچھ بحث تھی، خالد نے عبد الرحمن سے کہا: اگر تم ہم سے پہلے ایمان لے آئے ہو تو اس کی وجہ سے تم ہم پر زبان درازی کیوں کرتے ہو؟ جب یہ بات نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تک پہنچی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میری خاطر میرے صحابہ کو چھوڑ دو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم احد پہاڑ یا پہاڑوں کے بقدر سونا بھی (فی سبیل اللہ) خرچ کر دو تو پھر بھی ان کے اعمال (کے مرتبے) تک رسائی حاصل نہیں کر سکو گے۔ سابقین اولین صحابہ کرام نے جس ابتلا و آزمائش کے دور میں اسلام کو سہارا دیا‘ وہ کسی سے مخفی نہیں ہے‘ اس وقت سرے سے اسلام قبول کرنا دل گردے کا کام تھا اور ظالم انسانوں کی دشمنی مول لینے کے مترادف تھا‘ مشکل ساعتوں میں ان ہستیوں نے اسلام کی خدمت کی اور اسے اگلی نسلوں تک پہنچانے کے لئے عظیم کارنامے سرانجام دیئے۔ بعد والوںکی قربانیوں کا ان کے کردار کے ساتھ کوئی موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ان تین احادیث کو مد نظر رکھا جائے تو درج ذیل امور ہمارے سامنے آتے ہیں: ۱۔ صحابہ کرام سے خطا ہونا ممکن ہے۔ ۲۔ اُن کی خطاؤں پر بحث نہیں کی جا سکتی، بلکہ سرے سے ایسے پہلو کو ہی نظر انداز کر دیا جائے۔ ۳۔ بعد والے لوگوں کی بہ نسبت ان کو ان کی نیکیوںکا اجر و ثواب زیادہ ملے گا۔ اب ہم اپنے اصل موضوع کا آغاز کرتے ہیں۔ یہ بات تو درست ہے کہ مؤرخین تاریخی واقعات کی چھان بین کے لیے کوئی قواعد و ضوابط وضع نہ کر سکے، جیسا کہ محدثین نے احادیث کی تحقیق کے لیے قوانین مرتب کیے ہیں، اکثر مؤرخین حاطبین لیل نظر آتے ہیں، لیکن ہمارے پاس ان تاریخی معلومات تک تفصیل کے ساتھ رسائی حاصل کرنے کے لیے کوئی اور ذریعہ نہیں ہے، کتب ِ احادیث سے اس قسم کی بعض معلومات انتہائی اختصار کے ساتھ ملتی ہیں۔ ہم نے تمہیدی طور پر آئندہ سطور میں درج ذیل تاریخی کتب کی روشنی میں مشاجرات صحابہ کا خلاصہ بیان کیا ہے، تاکہ یہ واضح ہو جائے کہ ہم کون سے مشاجرات کے بارے میں سلف کا مؤقف بیان کرنا چاہتے ہیں: وقعۃ صفین، نصر بن مزاحم المنقری (م: ۲۱۲ھـ) ، طبع: المؤسسۃ الحدیثۃ للطبع والنشر والتوزیع، س: ۱۳۸۲؁ھـ تاریخ بغداد، الخطیب البغدادی، ابو بکر احمد بن علی، طبع: دار الکتب العلمیۃ بیروت البدایۃ والنھایۃ، ابن کثیر، ابو الفداء اسماعیل بن عمر بن کثیر (م: ۷۷۴ ؁ھـ) طبع: ھجر للطباعۃ والنشر والتوزیع والاعلان تاریخ اسلام، شاہ معین الدین، طبع: اسلامی اکادمی لاہور، س: ۱۹۹۶؁ء اب ہم اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں: جمعہ مبارک کے دن ۱۸ ذوالحجہ ۳۵ ھـ کو خلیفہ سوم سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ شہید ہو گئے، تین دن تک مسند ِ خلافت خالی رہی، اکابر صحابہ میں سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی شخصیت ہی متفق علیہ نظر آ رہی تھی، چنانچہ ایسے ہی ہوا اور سیدنا طلحہ اور سیدنازبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سمیت مہاجرین و انصار سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس پہنچے اور یہ درخواست کی کہ خلیفہ کا انتخاب ضروری ہے، ان لوگوں کے اصرار پر سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے یہ منصب قبول کیا۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے لیے سب سے اہم مرحلہ قاتلین عثمان سے قصاص لینا تھا، لیکن کچھ اسباب کی بنا پر وہ ایسا نہیں کر پا رہے تھے، بہرحال عوام الناس سمیت اکابر صحابہ تک اس قدر قصاص چاہتے تھے کہ ان کی نظر سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی مجبوریوں پر نہیں پڑتی تھی، اس کے ساتھ ساتھ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ عہد عثمانی کے اکثر عمال خصوصا والیٔ شام سیدنا امیر معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے مخالف تھے، اس لیے انھوں نے مسند ِ خلافت پر قدم رکھتے ہی ان سب کو معزول کرنے کا فیصلہ کیا، لیکن سیاست و تدبر کے مالک سیدنا مغیرہ بن شعبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سمیت آپ کے عاقبت اندیش خیر خواہوں نے اس چیز کی مخالفت کی، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کسی کا مشورہ قبول نہ کیا اور ۳۶ ھـ میں عثمانی عمال کو معزول کر کے ان کی جگہ نئے عمال کا تعین کر دیا، اس سلسلے میں سیدنا سہیل بن حنیف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو والیٔ شام مقرر کیا گیا، چنانچہ وہ شام روانہ ہو گئے۔ سیدنا امیر معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ایک مدبر حکمران تھے اور بیس بائیس سال سے بڑے اثرو رسوخ کے ساتھ شام کی ولایت پر فائز تھے، یقینا ان کو معزول کرنا آسان نہ تھا۔ یہی کچھ ہوا اور انھوں نے سیدنا سہل بن حنیف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو شام کی حدود میں داخل ہی نہ ہونے دیا اور تبوک سے ہی واپس کر دیا۔ سیدنا امیر معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے شہادت ِ عثمان کو موضوع بنا کر اور مختلف اسباب کے ذریعے شام کے مسلمانوں کے جذبات بھڑکانے میں کامیاب ہو گئے، نتیجتاً ساٹھ ہزار لوگوں نے سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا قصاص لینے کا عہد کر لیا۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو سارے حقائق کا علم ہوا اور انھوں نے سیدنا امیر معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مقابلہ کرنے کے لیے تیاریاں شروع کر دیں، یہ پہلا موقع تھا کہ مسلمانوں کی تلواریں آپس میں بے نیام ہونے لگی تھیں،یہی وجہ تھی کہ کئی صحابہ شرکت کے بارے میں متردد تھے، بہتوں نے مخالفت کی اور غیر جانبدار رہے۔ مصالحت کی خواہشات کے ساتھ ساتھ صلح صفائی کے لیے عملی کوشش بھی کی گئی، تردّد اور تذبذب کی کیفیات بھی موجود تھیں، بیچ میں سبائیوں کی فتنہ انگیزیاں بھی کار فرما تھیں، نتیجتاً امت ِ مسلمہ کو جنگ جمل اور جنگ صفین کی صورت میں ایسی زبردست آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا، کہ آج تک ان کا اثر جاری ہے، (العیاذ باللہ)۔ اس کے بعد بھی سیدنا علی اور سیدنا امیر معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کی ایک دوسرے کے علاقے پر قبصہ کرنے کی کشمکش جاری رہی، بالآخر فریقین میں صلح بھی ہو گئی تھی، بہرحال سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا پورا زمانہ خانہ جنگیوں میں گزر گیا، اندرونی جھگڑوں سے فرصت نہ ملنے کی وجہ سے بیرونی فتوحات کی طرف توجہ کرنے کا موقع ہی نہ ملا، تاہم سیستان اور کابل میں بعض فتوحات حاصل ہوئیں اور ۳۸ ھـ میں بحری راستہ سے کوہ کن پر حملہ ہوا، بالآخر سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ پر قاتلانہ حملہ ہوا اور وہ زخمی ہونے کے تیسرے دن ۲۰ رمضان ۴۰ ھـ کو دار فانی سے روانہ ہو گئے۔ ان کے بعد اسی مہینے میں سیدنا حسن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی بیعت کی گئی، جو بڑے نرم خو، متحمل مزاج، صلح جو اور امن پسند تھے اور جنگ و جدل سے طبعی طور پر نفرت رکھتے تھے۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی شہادت کے بعد سیدناامیر معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو عالم اسلام پر حکومت کرنے کی دیرینہ تمنا پوری کرنے کے موقع ملا، چنانچہ انھوں نے عراق پر فوج کشی کر دی، جب سیدنا حسن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو شامی فوج کی پیش قدمی کی خبر ملی تو آپ نے قیس بن سعد انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بارہ ہزار فوج کے ساتھ مقابلہ کے لیے آگے بھیج دیا اور خود ان کے عقب میں روانہ ہو گئے، اگرچہ عراقی فوج کی غداری کی مثالیں بھی موجود ہیں، لیکن جان نثاروں کی تعداد بھی معقول تھی، اصل بات یہ تھی کہ سیدنا حسن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ مسلمانوں کے خون کی قیمت پر خلافت نہیں خریدنا چاہتے تھے، اس لیے انھوں نے چند شرائط پر ربیع الاول ۴۱ ؁ھـ کو سیدنا امیر معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے حق میں دست برداری کا اعلان کر دیا، اس طرح آپ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی مدت ِ خلافت چھ ماہ بنتی ہے۔ اس دست برداری سے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی درج ذیل پیشین گوئی پوری ہوئی: حسن بصری کہتے ہیں: لما سار الحسن بن علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما الی معاویۃ بالکتائب، قال عمرو بن العاص لمعاویۃ: اری کتیبۃ لا تُوَلِّی حتی تُدْبَر اخراھا۔ قال معاویۃ: من لذراری المسلمین؟ فقال: انا، فقال عبد اللہ بن عامر وعبد الرحمن بن سمرۃ: نلقاہ فنقول لہ: الصلح، قال الحسن: ولقد سمعت ابا بکرۃ قال: بینا النبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یخطب جاء الحسن، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِبْنِیْ ھٰذَا سَیِّدٌ وَلَعَلَّ اللّٰہُ اَنْ یُّصْلِحَ بِہٖ بَیْنَ فِئَتَیْنِ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ۔)) (صحیح بخاری: ۷۱۰۹ )