Blog
Books
Search Hadith

فصل سوم: سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے لشکر کی صفین کے موقع پر کامیابی کے بعد ہز یمت کا سبب اور خوارج کاحضرت علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے خلاف خروج اور سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا ان کو قتل کرنا

۔ (۱۲۳۵۲)۔ عَنْ حَبِیبِ بْنِ أَبِی ثَابِتٍ قَالَ: أَتَیْتُ أَبَا وَائِلٍ فِی مَسْجِدِ أَہْلِہِ، أَسْأَلُہُ عَنْ ہٰؤُلَائِ الْقَوْمِ الَّذِینَ قَتَلَہُمْ عَلِیٌّ بِالنَّہْرَوَانِ، فَفِیمَا اسْتَجَابُوا لَہُ؟ وَفِیمَا فَارَقُوہُ؟ وَفِیمَا اسْتَحَلَّ قِتَالَہُمْ؟ قَالَ: کُنَّا بِصِفِّینَ فَلَمَّا اسْتَحَرَّ الْقَتْلُ بِأَہْلِ الشَّامِ اعْتَصَمُوا بِتَلٍّ، فَقَالَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ لِمُعَاوِیَۃَ: أَرْسِلْ إِلٰی عَلِیٍّ بِمُصْحَفٍ وَادْعُہُ إِلٰی کِتَابِ اللّٰہِ فَإِنَّہُ لَنْ یَأْبٰی عَلَیْکَ، فَجَائَ بِہِ رَجُلٌ فَقَالَ: بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ کِتَابُ اللّٰہِ: {أَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِینَ أُوتُوْا نَصِیبًا مِنْ الْکِتَابِ یُدْعَوْنَ إِلٰی کِتَابِ اللّٰہِ لِیَحْکُمَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ یَتَوَلّٰی فَرِیقٌ مِنْہُمْ وَہُمْ مُعْرِضُونَ} [آل عمران: ۲۳] فَقَالَ عَلِیٌّ: نَعَمْ، أَنَا أَوْلٰی بِذٰلِکَ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ کِتَابُ اللّٰہِ، قَالَ: فَجَائَتْہُ الْخَوَارِجُ، وَنَحْنُ نَدْعُوہُمْ یَوْمَئِذٍ الْقُرَّائَ، وَسُیُوفُہُمْ عَلٰی عَوَاتِقِہِمْ، فَقَالُوْا: یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ! مَا نَنْتَظِرُ بِہٰؤُلَائِ الْقَوْمِ الَّذِینَ عَلَی التَّلِّ، أَلَا نَمْشِی إِلَیْہِمْ بِسُیُوفِنَا حَتّٰییَحْکُمَ اللّٰہُ بَیْنَنَا وَبَیْنَہُمْ، فَتَکَلَّمَ سَہْلُ بْنُ حُنَیْفٍ فَقَالَ: یَا أَیُّہَا النَّاسُ! اتَّہِمُوا أَنْفُسَکُمْ، فَلَقَدْ رَأَیْتُنَایَوْمَ الْحُدَیْبِیَۃِ،یَعْنِی الصُّلْحَ الَّذِی کَانَ بَیْنَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَبَیْنَالْمُشْرِکِینَ، وَلَوْ نَرٰی قِتَالًا لَقَاتَلْنَا، فَجَائَ عُمَرُ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَلَسْنَا عَلَی الْحَقِّ وَہُمْ عَلٰی بَاطِلٍ؟ أَلَیْسَ قَتْلَانَا فِی الْجَنَّۃِ وَقَتْلَاہُمْ فِی النَّارِ؟ قَالَ: ((بَلٰی۔)) قَالَ: فَفِیمَ نُعْطِی الدَّنِیَّۃَ فِی دِینِنَا وَنَرْجِعُ وَلَمَّا یَحْکُمِ اللّٰہُ بَیْنَنَا وَبَیْنَہُمْ؟ فَقَالَ: ((یَا ابْنَ الْخَطَّابِ إِنِّی رَسُولُ اللّٰہِ، وَلَنْ یُضَیِّعَنِی أَبَدًا۔)) قَالَ: فَرَجَعَ وَہُوَ مُتَغَیِّظٌ فَلَمْ یَصْبِرْ حَتّٰی أَتٰی أَبَا بَکْرٍ، فَقَالَ: یَا أَبَا بَکْرٍ! أَلَسْنَا عَلٰی حَقٍّ وَہُمْ عَلٰی بَاطِلٍ؟ أَلَیْسَ قَتْلَانَا فِی الْجَنَّۃِ وَقَتْلَاہُمْ فِی النَّارِ؟ قَالَ: بَلٰی، قَالَ: فَفِیمَ نُعْطِی الدَّنِیَّۃَ فِی دِینِنَا وَنَرْجِعُ وَلَمَّا یَحْکُمِ اللّٰہُ بَیْنَنَا وَبَیْنَہُمْ؟ فَقَالَ: یَا ابْنَ الْخَطَّابِ! إِنَّہُ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَلَنْ یُضَیِّعَہُ اللّٰہُ أَبَدًا، قَالَ: فَنَزَلَتْ سُورَۃُ الْفَتْحِ، قَالَ: فَأَرْسَلَنِی رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلٰی عُمَرَ فَأَقْرَأَہَا إِیَّاہُ، قَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! وَفَتْحٌ ہُوَ؟ قَالَ: ((نَعَمْ۔)) (مسند احمد: ۱۶۰۷۱)

حبیب بن ابی ثابت سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں سیدنا ابو وائل کے ہاں ان کی مسجد میں حاضر ہوا، میں ان سے ان لوگوں کی بابت دریافت کرنا چاہتا تھا جن کو سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے نہروان کے مقام پر قتل کیا تھا، کہ لوگوں نے کیونکر ان کی بات مانی اور نہ ماننے والوں نے کیونکر ان کی بات نہ مانی اور سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کیونکر ان کوقتل کرنا حلال سمجھا؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم لوگ صفین کے مقام پر موجود تھے، جب اہل شام کے ساتھ گھمسان کی لڑائی ہونے لگی، تو انہوں نے ٹیلے کی طرف پناہ لی، سیدنا عمرو بن العاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: آپ علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی طرف مصحف بھیجیں اور انہیں کتاب اللہ کے فیصلہ پر آنے کی دعوت دیں، وہ اس بات کو قبول کرنے سے انکار نہیں کریںگے، تو ایک آدمی سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خدمت میں قرآن لے کر آیا اور اس نے کہاہمارے اور تمہارے درمیان اللہ کی کتاب کافی ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْکِتٰبِ یُدْعَوْنَ اِلٰی کِتٰبِ اللّٰہِ لِیَحْکُمَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ یَتَوَلّٰی فَرِیْقٌ مِّنْھُمْ وَھُمْ مُّعْرِضُوْنَ} … ٍٍِْْ بھلا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو اللہ کی کتاب میں سے حصہ دیا گیا اور انہیں اللہ کی کتاب کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ وہ کتاب ان لوگوں کے مابین ہونے والے تنازعات کا فیصلہ کردے تو ان میں سے ایک فریق کج ادائی کے ساتھ منہ موڑ جاتا ہے۔ یہ سن کر سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا:ٹھیک ہے، میں اس بات کا زیادہ مستحق ہوں، ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ کی کتاب حاکم ہے، خارجی لوگ جنہیں ہم ان دنوں قراء کہا کرتے تھے، وہ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس آئے، وہ اپنی تلواریں اپنے کندھوں پر لٹکائے ہوئے تھے، انہوںنے کہا: امیر المومنین! یہ لوگ جو ٹیلے کی طرف پناہ لیے ہوئے ہیں، ہم ان کی انتظارکیوں کر رہے ہیں؟ ہم کیوںنہ تلواریں تان کر ان کی طرف لڑنے کو نکلیں تاآنکہ اللہ ہمارے اور انکے درمیان فیصلہ کردے، یہ سن کر سیدنا سہل بن حنیف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بولے، انہوں نے کہا: لوگو! اپنی رائے یا بات پر نظر ثانی کرو، میںنے دیکھا کہ صلح حدیبیہ کے دن جو صلح رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور مشرکین کے مابین ہوئی، اس روز اگر ہم لڑنا چاہتے تو لڑ سکتے تھے، صلح کی بات ہوئی تو سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آئے، انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! کیا ہم حق پر اور وہ لوگ باطل پر نہیں؟ اور کیا ہمارے مقتول جنتی اور ان کے مقتول جہنمی نہیں ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: پھر ہم اپنے دین کے بارے میں کمزوری کیوں دکھائیں؟ اورہم یوں واپس کیوں لوٹ جائیں، جب کہ ابھی تک اللہ تعالیٰ نے ہمارے اور ان کے مابین فیصلہ نہیں کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے ابن خطاب! میں اللہ کا رسول ہوں اور اللہ مجھے کبھی ضائع نہیں کرے گا۔ یہ سن کر سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ غصہ کے عالم میں واپس لوٹ آئے، ان سے صبر نہ ہو وہ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہاں گئے اور کہا: اے ابو بکر! کیا ہم حق پر نہیں ہیں اور کیا وہ لوگ کفر پر نہیں ہیں؟ اور کیا ہمارے مقتول جنت میں اور ان کے مقتول جہنمی نہیں؟ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: جی بالکل، تو سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تو پھر ہم اپنے دین کے بارے میں اتنی کمزوری کیوں دکھائیں؟اور ہم یوں ہی واپس کیوںچلے جائیں؟ جب کہ ابھی تک اللہ تعالیٰ نے ہمارے اور ان کے مابین فیصلہ نہیں کیا؟ تو سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے ابن خطاب! وہ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ انہیں کبھی ضائع نہیں کرے گا، سیدنا سہل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: اس کے بعد سورۂ فتح نازل ہوئی، اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی طرف بھیجا کہ جا کر انہیں سنا آؤ؟ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا اس صلح کا انجام فتح ہوگا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں۔
Haidth Number: 12352
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۲۳۵۲) تخریج: اخرجہ البخاری: ۳۱۸۲،۴۸۴۴، ومسلم: ۱۷۸۵ (انظر: ۱۵۹۷۵)

Wazahat

فوائد:… دیکھیں حدیث نمبر (۱۲۸۲۲) اور اس کے بعد والی احادیث اور ابواب۔