Blog
Books
Search Hadith

سیدنا امام علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا فاطمہ زہرائ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے فرزند سیدنا امام حسن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خلافت سے متعلقہ ابواب باب اول: سیدنا حسن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خلافت کا بیان

۔ (۱۲۳۹۵)۔ (وَمِنْ طَرِیْقٍ آخَرَ) عَن الْحَسَنِ عَن أَبِی بَکْرَۃَ، قَالَ: بَیْنَا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ یَوْمٍیَخْطُبُ إِذْ جَائَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ، فَصَعِدَ إِلَیْہِ الْمِنْبَرَ، فَضَمَّہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَیْہِ، وَمَسَحَ عَلٰی رَأْسِہِ، وَقَالَ: ((ابْنِی ہٰذَا سَیِّدٌ، وَلَعَلَّ اللّٰہَ أَنْ یُصْلِحَ عَلٰییَدَیْہِ بَیْنَ فِئَتَیْنِ عَظِیمَتَیْنِ مِنَ الْمُسْلِمِینَ۔)) (مسند احمد: ۲۰۷۷۳)

۔ (دوسری سند) سیدنا ابوبکرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ایک دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خطبہ دے رہے تھے کہ سیدنا حسن بن علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آگئے، وہ آکر آپ کے پاس منبر پر چلے گئے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انہیں اپنے سینے سے لگالیا اور ان کے سر پر ہاتھ پھیر کر فرمایا: میر ایہ بیٹا سردار ہے اور امید ہے کہ اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں میں صلح کراے گا۔
Haidth Number: 12395
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۲۳۹۵) تخریج: انظر الحدیث بالطریق الاول

Wazahat

فوائد:… سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ پر قاتلانہ حملہ ہوا اور وہ زخمی ہونے کے تیسرے دن ۲۰ رمضان ۴۰ ؁ھـ کو دار فانی سے روانہ ہو گئے۔ ان کے بعد اسی مہینے میں سیدنا حسن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی بیعت کی گئی، جو بڑے نرم خو، متحمل مزاج، صلح جو اور امن پسند تھے اور جنگ و جدل سے طبعی طور پر نفرت رکھتے تھے۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی شہادت کے بعد سیدناامیر معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو عالم اسلام پر حکومت کرنے کی دیرینہ تمنا پوری کرنے کا موقع ملا، چنانچہ انھوں نے عراق پر فوج کشی کر دی، جب سیدنا حسن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو شامی فوج کی پیش قدمی کی خبر ملی تو آپ نے قیس بن سعد انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بارہ ہزار فوج کے ساتھ مقابلہ کے لیے آگے بھیج دیا اور خود ان کے عقب میں روانہ ہو گئے، اگرچہ عراقی فوج کی غداری کی مثالیں بھی موجود ہیں، لیکن جان نثاروں کی تعداد بھی معقول تھی، اصل بات یہ تھی کہ سیدنا حسن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ مسلمانوں کے خون کی قیمت پر خلافت نہیں خریدنا چاہتے تھے، اس لیے انھوں نے چند شرائط پر ربیع الاول ۴۱ ؁ھـ کو سیدنا امیر معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے حق میں دست برداری کا اعلان کر دیا، اس طرح آپ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی مدت ِ خلافت چھ ماہ بنتی ہے۔ اس دست برداری سے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی درج ذیل پیشین گوئی پوری ہوئی: حسن بصری کہتے ہیں: لَمَّا سَارَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما اِلٰی مُعَاوِیَۃَ بِالْکَتَائِبِ، قَالَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ لِمُعَاِویَۃَ: اَرٰی کَتِیْبَۃً لَا تُوَلِّی حَتّٰی تُدْبِرَ اُخْرَاھَا۔ قَالَ مُعَاوِیَۃُ: مَنْ لِذَرَارِی الْمُسْلِمِیْنَ؟ فَقَالَ: اَنَا، فَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَامِرٍ وَعَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ سَمُرَۃَ: نَلْقَاہُ فَنَقُوْلُ لَہُ: الصُّلْحَ، قَالَ الْحَسَنُ: وَلَقَدْ سَمِعْتُ اَبَا بَکْرَۃَ قَالَ: بَیْنَا النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَخْطُبُ جَائَ الْحَسَنُ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِبْنِیْ ھٰذَا سَیِّدٌ وَلَعَلَّ اللّٰہُ اَنْ یُّصْلِحَ بِہٖ بَیْنَ فِئَتَیْنِ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ۔)) (صحیح بخاری: ۷۱۰۹ ) جب سیدنا حسن بن علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما لشکروں کے ہمراہ معاویہ کی طرف چلے تو سیدنا عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: میرا خیال تو یہ ہے کہ یہ لشکر اس وقت تک واپس نہیں پلٹے گا، جب تک اس کے مد مقابل پیٹھ نہ پھیر جائیں۔ سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: مسلمانوں کے بچوں کا کفیل کون ہو گا؟ انھوں نے کہا: میں ہوں گا۔ پھر عبد اللہ بن عامر اور عبد الرحمن بن سمرہ نے کہا: ہم ان کو ملتے ہیں اور صلح پیش کرتے ہیں۔ حسن بصری نے کہا: میں نے سیدنا ابو بکرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ سیدنا حسن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آ گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ میرا بیٹا سردار ہے، شاید اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کی دو جماعتوں کے مابین صلح کر وا دے۔ حافظ ابن حجر نے کہا: اس قصہ میں نبوت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے (کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی پیشین گوئی پوری ہوئی) اور سیدنا حسن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی منقبت بھی ہے کہ انھوں نے قلت، ذلت اور کسی علت کے بغیر حکمرانی ترک کر دی اور اللہ تعالیٰ کے انعام کی رغبت میں مسلمانوں کا خون بہنے سے بچا لیا، پس انھوں نے دین کے معاملے اور امت کی مصلحت کا خیال رکھا، اس حدیث میں خوارج کا ردّ بھی ہے، جو سیدنا علی اور سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما اور ان کا ساتھ دینے والے لوگوں کو کافر قرار دیتے تھے، کیونکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دونوں گروہوں کے بارے میں شہادت دی کہ وہ مسلمان ہوں گے۔ (فتح الباری: ۱۳/ ۸۳ )