Blog
Books
Search Hadith

باب دوم: سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے مناقب

۔ (۱۲۴۱۳)۔ وَعَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ اَبِیْ عُمَیْرَۃَ الْاَزْدِیِّ، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَنَّہٗذَکَرَمُعَاوِیَۃَ وَقَالَ: ((اَللّٰہُمَّ اجْعَلْہٗھَادِیًا مَہْدِیًّا وَاھْدِ بِہِ۔)) (مسند احمد: ۱۸۰۵۵)

سیدنا عبدالرحمن بن ابی عمیرہ ازدی سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: یا اللہ! اسے راہ نما اور ہدایت یافتہ بنادے اور اس کے ذریعے لوگوں کو ہدایت نصیب فرما۔
Haidth Number: 12413
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۲۴۱۳) تخریج: صحیح، قالہ الالبانی، اخرجہ الترمذی: ۳۸۴۲(انظر: ۱۷۸۹۵)

Wazahat

فوائد:… یہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے حق میں دعائیں ہیں، جو یقینا مقبول ہوں گی۔ سیدنا عبداللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَعَثَ مُعَاوِیَۃَ لِیَکْتُبَ لَہٗ، قَالَ: إِنَّہٗ یَأْکُلُ، ثُمَّ بَعَثَ إِلَیْہِ فَقَالَ: إِنَّہٗ یَأْکُلُ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَا أَشْبَعَ اللّٰہُ بَطْنَہٗ۔)) … رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کچھ لکھوانے کے لیے انہیں بلوا بھیجا۔ انہوں نے کہا وہ کھانا کھا رہے ہیں۔ پھر پیغام بھیجا۔ انہوں نے کہا: وہ کھانا کھا رہے ہیں۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس کے پیٹ کو سیر نہ ہی کرے۔ (صحیح مسلم: ۸/ ۲۷) شیخ البانی ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ رقمطراز ہیں: بعض فرقوں نے اس حدیث ِ مبارکہ سے ناحق فائدہ اٹھاتے ہوئے سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ پر طعن کرنے کی کوشش کی ہے، حالانکہ یہ ان کی دلیل نہیں بن سکتی، (کیا ایسے لوگوں کو نظر نہیں آتا کہ) یہی سیدنا معاویہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے کاتب بھی تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ان کلمات سے مقصود بددعا نہیںہے، عرب لوگوں کی عادت تھی کہ وہ بغیر کسی قصد اور ارادے کے ایسے کلمات کہتے رہتے تھے، جیسے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی بیوی کو کہا: بانجھ اور سرمنڈی ۔ اسی طرح آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا فرمانا: تیرا ہاتھ خاک آلود ہو، تیری عمر بڑی نہ ہو۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے یہ کلمات بشری تقاضوں کی وجہ سے صادر ہوئے ہوں، جیسا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خود وضاحت کی ہے۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس دو آدمی آئے، انھوں نے آپ سے کوئی بات کی، میں نہ سمجھ سکی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غصے میں آ گئے اور ان پر لعن طعن کیا۔ جب وہ چلے گئے تو میں نے (طنزیہ انداز میں) کہا: اے اللہ کے رسول! جو بھلائی ان بے چاروں کو ملی ہے، وہ تو کسی کے حق میں نہیں آئی ہو گی؟ آپ نے پوچھا: وہ کیسے؟ میں نے کہا: آپ نے ان پر لعن طعن اور سب و شتم کیا (یہ ان کی بد بختی ہے)۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((اَوَمَا عَلِمْتِ مَاشَارَطْتُّ عَلَیْہِ رَبِّيْ؟ قُلْتُ اَللّٰھُمَّ! اِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ، فَاَيُّ الْمُسْلِمِیْنَ لَعَنْتُہٗ اَوْ سَبَبْتُہٗ، فَاجْعَلْہُ لَہٗ زَکَاۃً وَاَجْرًا۔)) … کیا تجھے اس شرط کا علم نہیں، جو میں نے اپنے رب سے لگائی ہے؟ میں نے کہا: اے اللہ! میں بشر ہوں، میں جس مسلمان پر لعن طعن کروں یا اسے گالی گلوچ کروں، تو تو اِس چیز کو اس کے حق میں باعثِ تزکیہ اور باعث اجر بنا دے۔ (صحیحہ:۸۳) امام مسلم نے اس حدیث پر یہ باب قائم کیا: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب کسی پر لعنت کریں یا کسی کو گالی اور بدعا دیں اور وہ اس کا اہل نہ ہو، تو یہ اس کے لیے تزکیہ، اجر اور رحمت کا باعث ہو گی۔ پھر انھوں نے یہ حدیث بیان کی: سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت کہ سیدنا ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ، جو انس کی ماں تھیں، کے پاس ایک یتیم بچی تھی۔ (ایک دن)آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس بچی کو دیکھا اور پوچھا: ((آنْتِ ھِیْہ؟ لَقَدْ کَبُرْتِ، لَا کَبُرَ سِنُّکِ۔)) تو یہاں ہے؟ تو تو بڑی ہو گئی ہے، تیری عمر نہ بڑھنے پائے۔ یہ سن کر یتیمہ روتی ہوئی أم سلیم کے پاس پہنچی۔ ام سلیم نے پوچھا: بیٹی! کیا ہوا؟ بچی نے جواب دیا: اللہ کے نبی نے مجھے بد دعا دی ہے کہ میری عمر نہ بڑھے یا میرا زمانہ طویل نہ ہونے پائے۔ ام سلیم نے جلدی جلدی چادر لپیٹی اور نکل پڑی، یہاں تک کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس پہنچ گئی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: ام سلیم! تجھے کیا ہوا؟ اس نے جواب دیا: اے اللہ کے نبی! کیا آپ نے میری یتیمہ کو بد دعا دی ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: وہ کون سی (ذرا وضاحت کرو)؟ اس نے کہا: میری یتیمہ کہتی ہے کہ آپ نے اسے اس کی عمر بڑی نہ ہونے یا اس کا زمانہ طویل نہ ہونے کی بددعا دی ہے۔ (یہ سن کر) آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مسکرائے اور فرمایا: ((یَا أُمَّ سُلَیْمٍ! أَمَا تَعْلَمِیْنَ أَنَّ شَرْطِیْ عَلٰی رَبِّیْ أَنِّیْ اِشْتَرَطْتُّ عَلٰی رَبِّیْ فَقُلْتُ: إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ أَرْضٰی کَمَا یَرْضَی الْبَشَرُ، وَأَغْضَبُ کَمَا یَغْضَبُ الْبَشَرُ، فَأَیُّمَا أَحَدٍ دَعَوْتُ عَلَیْہِ مِنْ أُمَّتِیْ بِدَعْوَۃٍ لَّیْسَ لَھَا بِأَھْلٍ، أَنْ یَّجْعَلَھَا لَہٗ طَھُوْرًا وَزَکَاۃً وَّقُرْبَۃً یُقَرِّبُہٗ بِھَا مِنْہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ؟۔)) ام سلیم! کیا تجھے علم نہیں ہے کہ میں نے اپنے ربّ سے شرط لگائی ہے کہ میں بشر ہوں، عام دوسرے انسانوں کی طرح خوش بھی ہوتا ہوں اور ناراض بھی۔ سو میں جس امتی پر ایسی بد دعا کر دوں جس کا وہ حقدار نہ ہو تو وہ (اللہ میرے امتی) کے حق میں اس بد دعا کو پاک کرنے والی، اس کا تزکیہ کرنے والی اور اسے روزِ قیامت اپنے قریب کر دینے والی بنا دے؟ (صحیحہ: ۸۴) پھر امام مسلم نے باب کے آخر میں سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ والی یہی حدیث ذکر کر کے یہ اشارہ دیا کہ جس طرح یتیمہ کے حق میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بد دعا باعث ِ تزکیہ و قربت ثابت ہوئی ، یہی معاملہ سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ساتھ ہو گا۔امام نووی نے شرح مسلم میں کہا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا سیدنا معاویہ کو بددعا دینا، اس کے دو جواب ہو سکتے ہیں: ۱۔ یہ کلمات بغیر کسی قصد کے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی زبان پر جاری ہو گئے۔ ۲۔ ان کی تاخیر کی وجہ سے یہ کلمات ان کو بطورِ سزا کہے گئے۔ امام مسلم یہ سمجھے کہ حقیقت میں سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اس بددعا کے مستحق نہ تھے، اس لیے انھوںنے اس حدیث کو اس باب میں داخل کیا ہے اور دوسروں نے تو اس حدیث سے سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی فضیلت ثابت کی ہے، کیونکہ یہ ان کے حق میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی دعا بن جائے گی۔ حافظ ذہبی نے (سیر اعلام النبلائ: ۹/ ۱۷۱/ ۲) میں اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: یہ کہنا ممکن ہے کہ اس حدیث میں سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی منقبت اور فضیلت بیان کی گئی ہے، کیونکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے اللہ! میں جس پر لعنت کروں یا گالی دوں، تو اسے اس کے لیے تزکیہ و رحمت کا باعث بنا دے۔ (صحیحہ: ۸۲)