Blog
Books
Search Hadith

ٔٔفصل: عہد خلافت ِمعاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا ایک اہم واقعہ غزوۂ قسطنطنیہ ہے

۔ (۱۲۴۱۷)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ بِشْرٍ الْخَثْعَمِیُّ، عَنْ أَبِیہِ أَنَّہُ سَمِعَ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((لَتُفْتَحَنَّ الْقُسْطَنْطِینِیَّۃُ فَلَنِعْمَ الْأَمِیرُ أَمِیرُہَا، وَلَنِعْمَ الْجَیْشُ ذٰلِکَ الْجَیْشُ۔)) قَالَ: فَدَعَانِی مَسْلَمَۃُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِکِ فَسَأَلَنِی فَحَدَّثْتُہُ فَغَزَا الْقُسْطَنْطِینِیَّۃَ۔ (مسند احمد: ۱۹۱۶۵)

سیدنا بشر خثعمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قسطنطنیہ ضرور فتح ہوگا، تو اس کا امیر بہترین امیر ہو گا اور وہ لشکر بہترین لشکر ہوگا۔ وہ کہتے ہیں: مسلمہ بن عبدالملک نے مجھے بلو ا کر اس بارے میں پوچھاتو میں نے انہیں یہ حدیث بیان کی، سو وہ قسطنطنیہ پر حملہ آور ہوئے۔
Haidth Number: 12417
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Doubtful

ضعیف

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۲۴۱۷) تخریج: اسنادہ ضعیف لجھالۃ عبدا للہ بن بشر الخثعمی، اخرجہ البخاری فی التاریخ الکبیر : ۲/ ۸۱، والبزار: ۱۸۴۸، والحاکم: ۴/ ۴۲۱، والطبرانی فی الکبیر : ۱۲۱۶(انظر: ۱۸۹۵۷)

Wazahat

فوائد:… اب قسطنطنیہ کا نام استنبول ہے اور اب یہ شہر ترکی میں واقع ہے۔ سیدنا امیر معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اپنے عہد میں قسطنطنیہ کی فتح کے لیے دو دفعہ بحری مہم بھیجی، لیکن کامیابی نہ ہو سکی، پھر ۹۸ سن ہجری میں عساکرِ اسلام نے ایک بار پھر قسطنطنیہ کا محاصرہ کیا، لیکن ناساز گار موسمی اور نفت یونانی (دھماکہ خیز مواد) کے باعث شہر فتح نہ ہو سکا۔ سلطان محمد ثانی کی وفات کے بعد حکومت کی باگ ڈور اس کے تئیس سالہ بیٹے محمد ثانی کے ہاتھ آئی،یہ پہلا عثمانی سلطان تھا، جس نے فتح قسطنطنیہ کا عزم کیا اور اس کو فتح کیا۔ یہ ۸۵۷ھ کا واقعہ ہے ۔ قسطنطنیہ کے بارے میں ایک اور حدیث ِمبارکہ اور اس کی تفصیل کا بیان درج ذیل ہے: خالد بن معدان کہتے ہیں کہ عمیر بن اسود عنسی نے ان کو بیان کیا کہ وہ سیدنا عبادہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس آئے اوروہ اس وقت سیدہ ام حرام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سمیت حمص کے ساحل میں فروکش تھے۔ عمیر کہتے ہیں: ہمیں سیدہ ام حرام نے بیان کیا کہ انھوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے سنا: : ((اَوَّلُ جَیْشٍ مِنْ اُمَّتِي یَغْزُوْنَ الْبَحْرَ قَدْ اَوْجَبُوْا۔)) قَالَتْ: اُمُّ حَرَامٍ : قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! اَنَا فِیْھِمْ ؟ قَالَ: ((اَنْتِ فِیْھِمْ۔)) ثُمَّ قَالَ: ((اَوَّلُ جَیْشٍ مِّنْ اُمَّتِي یَغْزُوْنَ مَدِیْنَۃَ قَیْصَرَ مَغْفُوْرٌ لَّھُمْ۔)) فَقُلْتُ: اَنَا فِیْھِمْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ؟ قَالَ: ((لا۔)) … سمندری جہاد کرنے والامیری امت کا پہلا لشکر(اپنے حق میں جنت کو) واجب کر لے گا۔ سیدہ ام حرام نے کہا: اے اللہ کے رسول! آیا میں بھی ان لوگوں میں ہوں گی؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو ان میں ہو گی۔ پھر فرمایا: قیصر کے شہر والوں سے جہاد کرنے والا میری امت کا پہلا لشکر بخشا ہوا ہو گا۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آیا میں ان میں ہوں گی؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں۔ (صحیح بخاری) حافظ ابن حجر نے کہا کہ مہلب کہتے ہیں کہ اس حدیث میں سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی منقبت کا بیان ہے، جنھوں نے سب سے پہلے بحری جہاد کیا، نیز اس میں ان کے بیٹے یزید کی بھی منقبت ہے جس نے ۵۲ ھ میں قیصر کے شہر پر سب سے پہلے چڑھائی کی، پھر ابن تین نے ان کا تعاقب کیا، جس کا خلاصہ یہ ہے: حدیث کے عموم میں داخل ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ کسی چیز کو خارج کرنے کے لیے خاص دلیل ضروری ہو، کیونکہ اہل علم کا اتفاق ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے الفاظ پہلا لشکر بخشا ہوا ہو گا کا تعلق اس شخص سے ہے، جس کی بخشش ممکن ہو، مثال کے طور پر اگر کوئی آدمی اس لشکر میں شرکت کرنے کے بعد مرتدّ ہو جاتا ہے تو وہ بالاتفاق اس حدیث کے اس عموم میں داخل نہیں ہو گا۔ پس معلوم ہوا کہ اس حدیث میں بخشش کی بشارت اسے سنائی جا رہی ہے، جس میں مغفرت کی شرط پائی جاتی ہو۔ لیکن ابن تین کا یہ کہنا کہ ممکن ہے کہ یزید لشکر میں موجود ہی نہ ہو، یہ قول مردود ہے، کیونکہ وہ بالاتفاق لشکر کا امیر تھا۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ ابن تین کی مرادیہ ہو کہ اس نے شرکت تو کی تھی، لیکن عملاً لڑا نہیں تھا۔ اس لشکر میں سیدنا ابو ایوب انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی تھے اور اسی غزوے میں فوت ہو گئے تھے، انھوں نے وصیت کی تھی کہ ان کو قسطنطنیہ کے دروازے کے پاس دفن کیا جائے اور ان کی قبر کے آثار ختم کر دیے جائیں۔ پھر وہ فوت ہو گئے اور ان کی وصیت پر عمل کیا گیا۔ (فتح الباری: ۶/ ۱۲۷) امام ابن تیمیہ، حافظ ابن حجر، علامہ قسطلانی اور حافظ ابن کثیر رحمہم اللہ تعالیٰ جیسے ائمہ اسلاف نے یزید بن معاویہ کو ہی اس پہلے لشکر کا سالار قرار دیا، جس نے تاریخ اسلامی میں سب سے پہلے شہر قیصر (قسطنطنیہ) پر حملہ کیا تھا۔ لیکن ہم نے عصر حاضر کے ایک ڈاکٹر کا چھبیس صفحات پر مشتمل ایک مضمون پڑھا، جس میں کوشش یہ کی گئی کہ یزید بن معاویہ کو تین بڑے جرائم کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی بخشش سے دور کر دینا چاہیے۔ ہم اس موقع پر یزید کی شخصیت کے اچھا یا برا ہونے کو موضوع بحث نہیں بنانا چاہتے۔ سوال یہ ہے کہ اگر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کسی لشکر کے مغفور ہونے کی پیشین گوئی کر دیں تو کیا اس لشکر میں شامل ہونے والوں کا معصوم اور پاکباز ہونا ضروری ہے، تاکہ وہ مغفرت ِ الہی کے حقدار ٹھہر سکیں، کیا اس لشکر میں شرکت کرنے والے کسی گنہگار شخص کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی عام منادی اور خوشخبری سے مستثنی کر دیا جائے گا؟ یہ فیصلہ کون کرے گا کہ ایسے لشکر میں شرکت کرنے والے فلاں فلاں شخص کی بخشش ہو جائے گی، لیکن فلاں فلاں محروم رہے گا؟ ہم بات کو ایک اور مثال سے واضح کرتے ہیں کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا کہ جو شخص وضو کرنے کے بعد اشھد ان لا الہ اللہ… والی دعا پڑھتا ہے، اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیئے جائیں گے۔ غور فرمائیں اگر کوئی گنہگار شخص وضو کرنے کے بعد یہی دعا پڑھے تو کیا اسے یہ کہا جائے گا کہ تو اپنے گناہوں کی وجہ سے اس خوشخبری کا مصداق نہیں بن سکتا؟ دوسری قانونی بات یہ ہے کہ ان لوگوں کو یہ نقطہ سمجھنا چاہیے تھا کہ فعل پر حکم لگانا اور بات ہے اور فاعل پر حکم لگانا اور بات ہے۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ یہ کہنا تو ضروری ہے قیصر کے شہر پر چڑھائی کرنے والا پہلا لشکر مغفور ہے۔ لیکن اس سے یہ مفہوم کشید کرنا کسی طرح درست نہیں ہو گا کہ جو جو فرد اس میں شریک ہوا ،اس کی تمام خطائیں معاف ہو چکی ہیں اور وہ جنت کا حتمی وارث بن چکا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مطلق طور پر پورے لشکر کے بارے میں حسن ظن رکھا جائے گا اور ہر شخص کے بارے میں حتمی فیصلے کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیا جائے گا، کیونکہ نیت کا حال اور عمل کی قبولیت کو صرف اللہ تعالیٰ کی ذات جانتی ہے، جیسے یہ تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا کہ جو شخص وضو کرنے کے بعد اشھد ان لا الہ اللہ… والی دعا پڑھتا ہے، اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیئے جائیں گے۔ لیکن جو آدمی یہ عمل کرتا ہے، اس کو مخاطب کر کے یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ تیرے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھل چکے ہیں اور تو نے مرنے کے بعد جنت میں داخل ہو جانا ہے، بلکہ اس کے معاملے کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیا جائے گا۔ ان گزارشات کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ ہم مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی حرمت کے قائل نہیں ہیں یا ہم اہل بیت کے حقوق کے بارے میں محتاط نہیں ہیں یا ہم یزید کے دور کی تمام کاروائیوں کو درست سمجھتے ہیں۔ ۲۰ رمضان سنہ ۴۰ہجری کو سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ خالق حقیقی کی طرف روانہ ہو گئے، ان کے بعد سیدنا حسن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ چھ ماہ تک امت ِ مسلمہ کے فرمانروا رہے، اس نصف سال کے بعد وہ سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے حق میں مستعفی ہو گئے اور سن ۴۱ ہجری کے اوائل میں سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ امت ِ مسلمہ کے واحد حکمران بن گئے اور بیس سال تک حکمرانی کی اور سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بروز جمعرات ۲۲ رجب سن ۶۰ ہجری کو اس جہان فانی سے عالم جاودانی کی طرف رخصت ہوئے، آپ کی کل عمر ۷۰ برس تھی۔