Blog
Books
Search Hadith

یزید بن معاویہ کی موت کے بعد سیدنا عبد اللہ بن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خلافت اور اس میں رونما ہونے والے واقعات کا بیان باب اول: سیدنا عبداللہ بن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی بیعت کا بیان

۔ (۱۲۴۳۹)۔ قَالَ حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ أَبِی عِمْرَانَ، قَالَ: قُلْتُ لِجُنْدُبٍ: إِنِّی قَدْ بَایَعْتُ ہٰؤُلَائِ یَعْنِی ابْنَ الزُّبَیْرِ، وَإِنَّہُمْ یُرِیدُونَ أَنْ أَخْرُجَ مَعَہُمْ إِلَی الشَّامِ، فَقَالَ: أَمْسِکْ، فَقُلْتُ: إِنَّہُمْ یَأْبَوْنَ، فَقَالَ: افْتَدِ بِمَالِکَ، قَالَ: قُلْتُ: إِنَّہُمْ یَأْبَوْنَ إِلَّا أَنْ أَضْرِبَ مَعَہُمْ بِالسَّیْفِ، فَقَالَ جُنْدُبٌ: حَدَّثَنِی فُلَانٌ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((یَجِیئُ الْمَقْتُولُ بِقَاتِلِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، فَیَقُولُ: یَا رَبِّ سَلْ ہٰذَا فِیمَ قَتَلَنِی۔)) قَالَ شُعْبَۃُ: فَأَحْسِبُہُ قَالَ: فَیَقُولُ: عَلَامَ قَتَلْتَہُ؟ فَیَقُولُ: قَتَلْتُہُ عَلٰی مُلْکِ فُلَانٍ۔)) قَالَ: فَقَالَ جُنْدُبٌ: فَاتَّقِہَا۔ (مسند احمد: ۲۳۵۷۶)

ابو عمران سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے جندب سے کہا: میں ان لوگوں یعنی سیدنا ابن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی بیعت کر چکا ہوں،اب یہ لوگ چاہتے ہیں کہ میں ان کے ہمراہ شام کی طرف جاؤں، انہوں نے کہا: مت جانا، میں نے کہا: وہ مجھے اپنے ساتھ لے جانے پر مصر ہیں، انہوںنے کہا: تم مال دے کر جان چھڑا لو، میں نے کہا: ان کا ایک ہی اصرا ر ہے کہ میں ان کے ساتھ مل کر قتال میں حصہ لوں، جندب نے کہا: مجھے فلاں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کاارشاد ہے: قیامت کے دن ایک مقتول اپنے قاتل کو ساتھ لے کر آئے گا اور کہے گا: اے میرے رب! اس سے پوچھ کہ اس نے مجھ کیوں قتل کیا تھا؟شعبہ کے الفا ظ ہیں: وہ کہے گا کہ اس نے مجھے کس وجہ سے قتل کیا تھا؟ وہ کہے گا: میں نے فلاں کی حکومت بچانے کے لیے اسے قتل کیا تھا۔ تو جندب نے کہا: پس تم بچ ہی جاؤ۔
Haidth Number: 12439
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۲۴۳۹) تخریج: اسنادہ صحیح علی شرط الشیخین، اخرجہ النسائی مختصرا دون القصۃ: ۷/۸۴ (انظر: ۲۳۱۸۹)

Wazahat

فوائد:… سیدنا عبد اللہ بن زبیر بن عوام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے باپ سیدنا زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں اور آپ کی ماں سیدہ اسماء بنت ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا تھیں۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے مدینہ میں ہجرت کر کے تشریف لانے سے بیس ماہ کے بعد سیدنا عبد اللہ بن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی ولادت ہوئی، آپ مدینہ منورہ میں مہاجرین کی سب سے پہلی اولاد تھے، اس لیے مہاجرین غیر معمولی طور پر خوش ہوئے، آپ ۷۲ برس کی عمر میں جمادی الثانی سنہ ۷۳ ہجری میں بنو امیہ کے حکمرانوں کے ہاتھوں شہید ہو گئے۔ اگلی حدیث اور اس کے متعلقہ بخاری کی شرح فتح الباری (ج:۷، ص: ۲۴۸) کو سامنے رکھیں تو بات یہ سمجھ آتی ہے کہ عبداللہ بن زبیر مسلمانوں کے ہجرت کرکے مدینہ پہنچنے کے چند دن بعد پیدا ہوئے تھے۔ (عبداللہ رفیق) سیدنا عبد اللہ بن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی حکومت مکہ معظمہ میں سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی وفات کے بعد ہی سے قائم تھی اور انھوں نے یزید کے عہد ِ حکومت میں مکہ پر کبھی یزید کی حکومت قائم نہیں ہونے گی،یزید کے مرنے کے بعد انھوں نے لوگوں سے بیعت ِ خلافت لی اور بہت جلد شام کے بعض مقامات کے ساتھ تمام عالم اسلام میں وہ خلیفہ تسلیم کر لیے گئے، اس زمانے مں ان کو ملک شام کی اس حالت کا جوان کے موافق پیدا ہو چکی تھی، صحیح اندازہ نہیں ہو سکا اور وہ بنو امیہ کی طاقت و قبولیت کا جو امیر معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے زمانے سے شام میں ان کو حاصل تھی، اندازہ کرنے میں غلطی کھا گئے، اگر ان کو بنو قیس اور بنو کلب کی نا اتفاقی و رقابت اور اپنی قبولیت کا جو ملک شام میں پیدا ہو چکی تھی، صحیح اندازہ ہو جاتا تو وہ ضرور ملک شام کا ایک سفر کرتے اور یہ سفر ایسا ہی مفید ثابت ہوتا جیسا سیدنا فاروق اعظم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا سفرِ شام عالمِ اسلام کے لیے مفید ثابت ہوا تھا۔ اس کے بعد مروان کی خلافت اور بنو امیہ کے اثر و اقتدار کی واپسی ہر گز ظہور میں نہ آتی۔ سیدنا عبد اللہ بن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی زندگی کئی حالات واقعات سے گزری، تفصیل کے لیے کتب تاریخ کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔