Blog
Books
Search Hadith

اذان، اذان کہنے والوں اور اماموں کی فضیلت کا بیان

۔ (۱۲۵۷) عَنِ الْبَرَائِ بِنْ عَاِزبٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ أَنَّ نَبِیَّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((إِنَّ اللّٰہَ وَمَلَائِکَتَہُ یُصَلُّونَ عَلَی الصَّفِّ الْمُقَدَّمِ وَالْمُؤََذِّنُ یُغْفَرُ لَہُ مَدَّ صَوْتِہِ وَیُصَدِّقُہُ مَنْ سَمِعَہُ مِنْ رَطْبٍ وَیَابِسٍ، وَلَہُ مِثْلُ أَجْرِ مَنْ صَلّٰی مَعَہُ۔)) (مسند احمد: ۱۸۷۰۰)

سیّدنا براء بن عازب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یقینا اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اگلی صف پر رحمت بھیجتے ہیں اور مؤذن کو اس کی آواز کے پھیلاؤ کے برابر بخش دیا جاتا ہے، اور اس کو سننے والی خشک اور ترچیز اس کی تصدیق کرتی ہے ، اور اسے اس کے ساتھ نماز پڑھنے والوں کا اجرو ثواب بھی ملے گا۔
Haidth Number: 1257
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۲۵۷) تخر یـج: …حدیث صحیح دون قولہ: ((ولہ مثل اجر من صلی معہ))۔ وھذا اسناد ضعیف۔ قتادہ بن دعامۃ مدلس، وقد عنعن، وفی سماعہ من ابی اسحاق السبیعی نظر۔ أخرجہ النسائی: ۲/ ۱۳ (انظر: ۱۸۵۰۶)

Wazahat

فوائد:… اذان کے کئی فضائل کے باوجود اذان دینے کے سلسلے میں عجیب قسم کی بے رغبتی پائی جاتی ہے، شاید بعض لوگ ایسے بھی ہوں کہ نہ انھوں نے زندگی بھراذان دی ہو گی اور نہ ان میں اس کی تڑپ پیدا ہوئی ہو گی۔ (العیاذ باللہ تعالی) رہا مسئلہ پہلی صف کا، تو جس مسجد میں نمازیوں کی دو تین صفیں بن جاتی ہیں، وہاں اکثر طور پر ابتدائے نماز کے وقت پانچ چھ نمازی ہوتے ہیں اور کئی لوگ پہلے پہنچ جانے کے باوجود پچھلی صفوں میں بیٹھنے کو ترجیح دیتے ہیں، بالخصوص جمعۂ مبارکہ کا خطبہ سنتے وقت۔ یہ سب امور دین میں بے رغبتی کی صورتیں ہیں۔ امام البانی ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ نے کہا:…اس بات پر بھی بڑا تعجب ہے کہ علمائے اسلام اور مبلغ حضرات نے بھی عملی طور پر اس عظیم عبادت اور شعارِ اسلام سے بے رخی اختیار کر رکھی ہے، بہت کم دیکھا گیا ہے کہ کوئی عالم کسی مسجد میں اذان دے رہا ہو، بلکہ بسااوقات وہ اذان دینے سے شرمندگی محسوس کرتے ہیں اور انھیں تعجب ہوتا ہے کہ وہ یہ نیکی کریں، لیکن امامت کی باری آتی ہے تو اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں، بلکہ جھگڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ بس اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنا شکوہ دائر کرواتے ہیں کہ اس زمانے میں اتنی اجنبیت کیوں پائی جا رہی ہے۔ (صحیحہ: ۴۲)