Blog
Books
Search Hadith

با ب سوم: اس امر کا بیان کہ امت محمدیہ میں سے ایک گروہ قیامت تک حق پر ثابت قدم رہے گا

۔ (۱۲۵۰۱)۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، عَنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنَّہُ قَالَ: ((لَنْ یَزَالَ عَلٰی ہٰذَا الْأَمْرِ عِصَابَۃٌ عَلَی الْحَقِّ، لَا یَضُرُّہُمْ مَنْ خَالَفَہُمْ حَتّٰییَأْتِیَہُمْ أَمْرُ اللّٰہِ، وَہُمْ عَلٰی ذٰلِکَ۔)) (مسند احمد: ۸۴۶۵)

سیدنا عمران بن حصین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میری امت کا ایک گروہ اپنے مخالفین پر ہمیشہ غالب رہے گا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا امر یعنی قیامت آجائے گی اور عیسیٰ بن مریم علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے۔
Haidth Number: 12502
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۲۵۰۲) تخریج: اسنادہ صحیح علی شرط مسلم، اخرجہ ابوداود: ۲۴۸۴(انظر: ۱۹۸۵۱)

Wazahat

فوائد:… امام بخاری نے کہا: اس جماعت سے مراد اہل علم ہیں۔ امام احمد نے کہا: اِنْ لَّمْ یَکُوْنُوْا اَھْلَ الْحَدِیْثِ فَلَا اَدْرِیْ مَنْ ھُمْ۔ یعنی: اگر اس جماعت سے مراد اہل الحدیث (یعنی محدثین) نہیں ہیں، تو میں نہیں جانتا کہ کون مراد ہیں۔ قاضی عیاض نے کہا: اِنَّمَا اَرَادَ اَحْمَدُ اَہْلَ السُّنَّۃِ وَالْجَمَاعَۃِ وَمَنْ یَعْتَقِدُ مَذَہْبَ اَہْلِ الْحَدِیْثِ۔ یعنی: امام احمد کی مراد اہل السنہ والجماعہ ہیں اور وہ لوگ ہیں جو اہل الحدیث کے منہج کے پیروکار ہوں۔ امام نووی نے کہا: ممکن ہے کہ یہ طائفہ مومنوں کی متعدد جماعتوں پر مشتمل ہو، مثلا: بہادری والے، بصیرت والے، فقیہ، محدث، مفسر، آمر بالمعروف، ناہی عن المنکر، زاہد اور عابد۔ اور یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ ایک علاقے میں جمع ہوں۔ (دیکھئے: فتح الباری: ۱۳/ ۳۶۳، ۳۶۵، عون المعبود: حدیث: ۲۴۸۴) خلاصۂ کلام یہ ہے کہ جو لوگ علم و عمل کی صورت میں قرآن و حدیث کی خدمت اور ان کا تحفظ کرتے رہے ، وہ اس خوشخبری کے مستحق ہیں۔ شیخ البانی ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ لکھتے ہیں: عجیب حسنِ اتفاق ہے کہ اس حدیث ِ مبارکہ کا محل متعین کرتے ہوئے ہر دور اور زمانہ کے نیز ہر طبقہ کے محدثین کرام متفق نظر آتے ہیں۔ امام احمد بن حنبل، امام بخاری، امام علی بن مدینی، یزید بن ہارون اور متأخرین میں سے خطیب بغدادی وغیرہ، کوئی بھی اختلاف کرتا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔ الفاظ اگرچہ مختلف ہیں، مگر مسمّی ایک ہی ہے۔ ایسا زبردست اتفاق شاید ہی کسی حدیث کی توضیح و تعبیر میں دیکھنے میں آیا ہو۔ بعض لوگ اس اختصاص پر چیں بجبیں ہوتے ہیں اور اہل حدیث کے تذکرہ سے سخت کبیدہ خاطر ہوتے ہیں، مگر انہیں دو باتیں ذہن نشین کر لینی چاہئیں۔ ایک یہ کہ حدیث و سنت کے ساتھ والہانہ شغف ، حدیث و سنت کے جملہ علوم کے ساتھ حد درجہ اعتنا و توجہ، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی سیرت و اخلاق اور غزوات و سرایا نیز حدیث پڑھنے پڑھانے میں یہ محدثین سب لوگوں سے فائق ہیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ صدر اول کے بعد امت مرحومہ کئی فرقوں میں بٹ گئی، ہر مذہب والوں نے اپنے اصول و فروع مقرر کر لئے اور مسلک کی رو رعایت کرتے ہوئے مخصوص احادیث سے استدلال کرنے لگے اور دوسری طرف نگاہ اٹھانا ہی گوارہ نہ کیا۔ مگر قربان جائیے اہل حدیث پر، ان کے ماتھے کا جھومر اور مانگ کا سیندور ہمیشہ فرمودۂ رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رہا ہے۔ انہوں نے فرمانِ رسول کو ہمیشہ سینے سے لگایا ہے، خواہ روایت کرنے والا شیعہ ہو یا قدریہ یا خارجی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والا ہے، حنفی اور مالکی وغیرہ ہونا تو دوسری بات ہے، بشرطیکہ وہ عادل مسلم اور ثقہ ہو۔ اہل حدیث کسی دھڑے بندی اور گروہی تعصب کا شکار نہیں ہوئے۔ حدیث ِ رسول ہی ان کا مطمح نظر رہا۔ فللہ درھم۔ ہم اپنی گفتگو کو حنفی سرخیل عالم مولانا محمد عبد الحئی لکھنوی کی بات پر ختم کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں: اگر کوئی شخص بنظرِ انصاف دیکھے، فقہ و اصول کے سمندر میں تنگ نظری کے بغیر غوطہ خوری کرے تو اسے یقین کامل ہو جائے گا کہ اختلافی مسائل ، خواہ ان کا تعلق اصول سے ہو یا فروع سے، ان میںمحدثین کرام کا مؤقف محفوظ، قوی اور بادلائل ہے۔ میں نے جب اختلافی مسائل میں تحقیق و تدقیق سے کام لیا تو محدثین کی بات کو قرین انصاف پایا ہے۔ بھلا ایسا کیوں نہ ہو، وہ وارثانِ علوم نبوت اور نائبینِ شرعیت ِ محمدی ہیں۔ مولائے کریم ہمیں ان کی رفاقت کے شرفِ عظیم سے بہرہ ور فرمائیں اور ان کی محبت و کردار کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائیں۔ (ملخص از صحیحہ: ۲۷۰)