Blog
Books
Search Hadith

باب چہارم:اس امر کابیان کہ امت محمدیہ میں سے سات لاکھ بلکہ اس سے بھی زیادہ افراد حساب اورعذاب کے بغیر جنت میں داخل ہوں گے

۔ (۱۲۵۰۳)۔ عَنْ ضَمْضَمِ بْنِ زُرْعَۃَ، قَالَ شُرَیْحُ بْنُ عُبَیْدٍ: مَرِضَ ثَوْبَانُ بِحِمْصَ وَعَلَیْہَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ قُرْطٍ الْأَزْدِیُّ فَلَمْ یَعُدْہُ، فَدَخَلَ عَلٰی ثَوْبَانَ رَجُلٌ مِنَ الْکَلَاعِیِّینَ عَائِدًا، فَقَالَ لَہُ ثَوْبَانُ: أَتَکْتُبُ؟ فَقَالَ: نَعَمْ، فَقَالَ: اکْتُبْ، فَکَتَبَ لِلْأَمِینِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ قُرْطٍ مِنْ ثَوْبَانَ مَوْلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَّا بَعْدُ! فَإِنَّہُ لَوْ کَانَ لِمُوسَی وَعِیسَی مَوْلًی بِحَضْرَتِکَ لَعُدْتَہُ ثُمَّ طَوَی الْکِتَابَ، وَقَالَ لَہُ: أَتُبَلِّغُہُ إِیَّاہُ، فَقَالَ: نَعَمْ، فَانْطَلَقَ الرَّجُلُ بِکِتَابِہِ فَدَفَعَہُ إِلَی ابْنِ قُرْطٍ، فَلَمَّا قَرَأَہُ قَامَ فَزِعًا، فَقَالَ النَّاسُ: مَا شَأْنُہُ أَحَدَثَ أَمْرٌ؟ فَأَتٰی ثَوْبَانَ حَتّٰی دَخَلَ عَلَیْہِ فَعَادَہُ وَجَلَسَ عِنْدَہُ سَاعَۃً ثُمَّ قَامَ فَأَخَذَ ثَوْبَانُ بِرِدَائِہِ وَقَالَ: اجْلِسْ حَتّٰی أُحَدِّثَکَ حَدِیثًا سَمِعْتُہُ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، سَمِعْتُہُ یَقُولُ: ((لَیَدْخُلَنَّ الْجَنَّۃَ مِنْ أُمَّتِی سَبْعُونَ أَلْفًا لَا حِسَابَ عَلَیْہِمْ وَلَا عَذَابَ مَعَ کُلِّ أَلْفٍ سَبْعُونَ أَلْفًا۔)) (مسند احمد: ۲۲۷۸۲)

شریح بن عبید سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: حمص میں سیدنا ثوبان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیمار پڑگئے، ان دنوں وہاں کا عامل عبداللہ بن قرط ازدی تھا، وہ ان کی عیادت کے لیے نہ آیا، جب بنو کلاع قبیلہ کا ایک آدمی سیدنا ثوبان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی عیادت کے لیے آیا تو انھوں نے اس سے کہا: کیا تم لکھنا جانتے ہو؟ اس نے کہا: جی ہاں، انہوں نے کہا: لکھو، پھر انہوں نے یہ تحریر لکھوائی: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے خادم ثوبان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی طرف سے امیر عبداللہ بن قرط کے نام، امابعد! اگرتمہارے علاقہ میں موسی یا عیسیٰh کا کوئی خادم ہوتا تو تم ضرور اس کی بیمار پرسی کو جاتے۔ پھر انہوں نے خط لپیٹ کر کہا: کیا تم یہ خط عبداللہ تک پہنچادو گے؟ اس نے کہا: جی ہاں، پس جب اس آدمی نے جا کر وہ خط عبداللہ بن قرط کو دے دیا اور اس نے پڑھا تو وہ خوف زدہ سا ہو کر اٹھ کھڑا ہوا، لوگوں نے کہا: اسے کیا ہوا؟ کیا کوئی حادثہ پیش آگیا ہے؟ وہ ثوبان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خدمت میں پہنچا، ان کی عیادت کی اور کچھ دیر ان کی خدمت میں بیٹھا رہا، اس کے بعد اٹھ کر جانے لگا تو سیدنا ثوبان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اس کی چادر پکڑی اور کہا: بیٹھ جاؤ، میں تم کو ایک حدیث سناتا ہوں، جو میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنی ہوئی ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میری امت میں سے ستر ہزار آدمی بغیر حساب اور عذاب کے جنت میں جائیں گے اور اس پر مستزاد یہ کہ ان میں سے ہر ہزار کے ساتھ ستر آدمی ہوں گے۔
Haidth Number: 12503
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۲۵۰۳) تخریج: المرفوع منہ صحیح لغیرہ، اخرجہ الطبرانی فی الکبیر : ۱۴۱۳(انظر: ۲۲۴۱۸)

Wazahat

فوائد:… ستر ہزار اور ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزار، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی امت کے یہ کل انچاس لاکھ اور ستر ہزار (۰۰۰،۷۰،۴۹) افراد بنتے ہیں، جو بغیر کسی حساب وکتاب اور باز پرس کے جنت کے وارث بن جائیں گے۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھے بہت سی امتیں دکھائی گئیں، میں نے دیکھا کہ کسی نبی کے ساتھ تو بہت بڑی جماعت ہے اور کسی نبی کے ساتھ صرف ایک یا دو آدمی ہیں اور ایسے نبی کو بھی دیکھا کہ جس کے ساتھ کوئی بھی نہ تھا۔ اچانک میرے سامنے ایک انبوہِ کثیر آیا، میں نے خیال کیا کہ یہ میری امت ہو گی، لیکن مجھے کہا گیا کہ یہ موسی علیہ السلام اور ان کی قوم ہے۔ اس کے بعد میں نے ایک بہت بڑی تعداد کو دیکھا، مجھے بتلایا گیا: ھٰذِہٖ اُمَّتُکَ وَمَعَھُمْ سَبْعُوْنَ اَلْفًا یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ بِغَیْرِ حِسَابٍ وَلَا عَذَابٍ۔ … یہ آپ کی امت ہے اور آپ کی امت میں ستر ہزار افراد وہ ہیں، جو بغیر حساب اور بغیر عذاب کے جنت میں داخل ہوں گے۔ یہ واقعہ سنا کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم گھر تشریف لے گئے۔ پس صحابہ کرام آپس میں ان ستر ہزار کے بارے میں قیاس آرائیاں کرنے لگے۔ بعض کا کہنا تھا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کو آنحضرت ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی صحبت کا شرف حاصل ہے۔بعض صحابہ کرام نے کہاکہ یہ وہ لوگ ہوں گے جو اسلام میں پیدا ہوئے اور انھوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کیا، علاوہ ازیں صحابہ نے اور توجیہات بھی بیان کیں۔ جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لائے تو صحابہ کرام نے اپنی مختلف آراء کا اظہار کیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((ھُم الَّذِیْنَ لَایَسْتَرِقُوْنَ وَلَا یَکْتَوُوْنَ وَلَا یَتَطَیَّرُوْنَ وَعَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ۔)) … یہ وہ لوگ ہوں گے جو دم نہیں کرواتے، نہ اپنے جسموں کو داغتے ہیں، نہ وہ فال لیتے ہیں اور اپنے اللہ پر ہی توکل کرتے ہیں۔ (بخاری، مسلم) اس حدیث ِ مبارکہ میں بغیر حساب و عذاب کے جنت میں داخل ہونے والوں کی نمایاں صفات بیان کی گئی ہیں کہ وہ شرک کی کسی بھی قسم میں مبتلا نہ ہوئے اور اپنی معمولی سے معمولی ضرورت کو غیر اللہ کے سامنے نہ رکھا، حتی کہ دم کرانے اور داغ لگوانے سے بھی گریز کیا۔ اس کا سب سے بڑا سبب یہ تھا کہ ان کا اللہ تعالیٰ پر توکل اور بھروسہ تھا، اپنی مشکلات صرف اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر کے علاوہ کسی کی طرف بھی ان کی توجہ نہ تھی، وہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے تھے، اس کے سوا کسی سے نہ ڈرتے تھے،ا ن کا عقیدہ تھا کہ جو مشکلات پیش آتی ہیں، وہ اللہ کی تقدیر اور اس کی مرضی کے مطابق آتی ہیں، لہٰذا وہ مصائب و مشکلات میں صرف اللہ تعالیٰ کو ہی پکارتے تھے، جیسا کہ یعقوب علیہ السلام کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا: {قَالَ اِنَّمَا اَشْکُوْ بَثِّیْ وَ حُزْنِیْ اِلَی اللّٰہِ} (سورۂ یوسف: ۸۶) … انھوں نے کہا: میں اپنی پریشانی اور اپنے غم کی فریاد اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے نہیں کرتا۔ بغیر حساب و عذاب کے جنت میں داخل ہونے والوں کی سب سے زیادہ تعداد درج ذیل حدیث میں بیان کی گئی ہے۔ سیدنا ابو بکر صدیق ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((أُعْطِیْتُ سَبْعِیْنَ أَلْفًا یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ بِغَیْرِ حِسَابٍ، وُجُوْھُھُمْ کَالْقَمَرِ لَیْلَۃَ الْبَدْرِ، وَقُلُوْبُھُمْ عَلٰی قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ فَاسْتَزَدْتُّ رَبِّیْ عَزَّوَجَلَّ فَزَادَنِیْ مَعَ کُلِّ وَاحِدٍ سَبْعِیْنَ أَلْفًا۔)) قَالَ أَبُوْ بَکْرٍ: فَرَأَیْتُ أَنَّ ذٰلِکَ آتٍ عَلٰی أَھْلِ الْقُرٰی، وَمُصِیْبٌ مِنْ حَافَّاتِ الْبَوَادِیْ۔… میری امت کے ستر ہزار افراد بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے، ان کے چہرے بدر والی رات کے چاند کی طرح چمکتے ہوں گے اور ان کے دل ایک انسان کے دل کی مانند ہوں گے۔ جب میں نے اپنے ربّ سے مزید مطالبہ کیا تو اس نے ہر ایک کے ساتھ مزید ستر ہزار افراد کا اضافہ کر دیا۔ سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میرا خیال ہے کہ یہ چیز بستیوں والوں پر آئے گی اور دیہاتوں کے کناروں تک پہنچے گی۔ (مسند احمد: ۱/ ۶، صحیحہ: ۱۴۸۴) اس حدیث کے مطابق چار ارب، نوے کروڑ اور ستر ہزار (۰۰۰،۷۰،۰۰،۹۰،۴) افراد حساب وکتاب کے بغیر جنت میں جائیں گے۔ (سبحان اللہ) یا اللہ! ہمارا بھی خیال رکھنا، تیرا رحم و کرم ہماری سوچ سے کہیں زیادہ ہے۔ لیکن درج ذیل حدیث میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کی زیادہ وسعت نظر آ رہی ہے: سیدنا ابو امامہ باہلی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: (( وَعَدَنِی رَبِّی سُبْحَانَہُ أَنْ یُدْخِلَ الْجَنَّۃَ مِنْ أُمَّتِی سَبْعِینَ أَلْفًا لَا حِسَابَ عَلَیْہِمْ وَلَا عَذَابَ مَعَ کُلِّ أَلْفٍ سَبْعُونَ أَلْفًا وَثَلَاثُ حَثَیَاتٍ مِنْ حَثَیَاتِ رَبِّی عَزَّ وَجَلَّ۔)) … میرے ربّ نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ وہ میری امت میں حساب اور عذاب کے بغیر ستر ہزار افراد کو جنت میں داخل کرے گا اور ہر ہزار کے ساتھ مزید ستر ہزار بھی ہوں گے اور اس پر مستزاد یہ کہ میرے ربّ عزوجل کے تین چلو بھی ہوں گے۔ (ابن ماجہ: ۴۲۷۶) اللہ جانے کہ اس کے چلو میں کتنے محمدی سما جائیں گے۔