Blog
Books
Search Hadith

باب دوم: اس امر کا بیان کہ قریش کی اقتداء کی جائے اور خلافت ان ہی کا استحقاق ہے

۔ (۱۲۵۴۶)۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِنَّ لِی عَلٰی قُرَیْشٍ حَقًّا، وَإِنَّ لِقُرَیْشٍ عَلَیْکُمْ حَقًّا، مَا حَکَمُوا فَعَدَلُوا، وَأْتُمِنُوا فَأَدَّوْا، وَاسْتُرْحِمُوا فَرَحِمُوا۔)) (مسند احمد: ۷۶۴۰)

سیدناابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے کچھ حقوق قریش کے ذـمہ ہیں اور قریش کے لیے کچھ حقوق تمہارے ذمے ہیں، جب تک وہ عدل و انصاف سے فیصلے کرتے رہیں، جب ان کے پاس امانتیں رکھی جائیں تو وہ امانتیں ادا کرتے رہیں اور جب ان سے رحم کا مطالبہ کیا جائے تو وہ شفقت کرتے رہیں۔
Haidth Number: 12546
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۲۵۴۶) تخریج: اسنادہ صحیح علی شرط الشیخین، اخرجہ الطبرانی فی الاوسط : ۳۰۱۲، وعبدالرزاق: ۱۹۹۰۲(انظر: ۷۶۵۳)

Wazahat

فوائد:… امام البانی ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ لکھتے ہیں: اس قسم کی احادیث میں بعض ایسے قدیم گمراہ فرقوں، بعض مولفین اور بعض جدید احزابِ اسلامیہ کا ردّکیا گیا ہے، جو خلیفہ میں عربی اور قریشی ہونے کی شرط نہیں لگاتے۔ بڑی عجیب بات ہے کہ سلفیت کے دعویدار ایک شیخ نے (الدولۃ الاسلامیۃ) کے نام سے ایک رسالہ لکھا، اس کے شروع میں خلیفہ کی تمام شروط لکھیں، ماسوائے اس شرط کے کہ وہ قریشی ہونا چاہیے، ظاہر بات تو یہی ہے کہ یہ احادیث اس کے علم میں نہ ہوں گی۔ جب میںنے ان کے سامنے ان احادیث کا ذکر کیا تو وہ مسکرانے لگے، لیکن اس موضوع پر نظر ثانی کرنے پر آمادگی کا اظہار نہ کیا، … …۔ بہرحال ہر مؤلف کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہر مضمون لکھتے وقت حق کا خیال رکھے اور حزبی اور سیاسی جانبداری کو ترجیح نہ دے اور جمہور کی موافقت یا مخالفت کا خیال نہ رکھے۔ واللہ ولی التوفیق۔ (صحیحہ: ۱۰۰۷) دورِ جاہلیت میں قریش کو جو شرف حاصل رہا، ان کے مسلمان ہونے کے بعد اسلام نے اس کو برقرار رکھا اور اسے عربوں کے بقیہ قبائل پر امامت و امارت میں مقدم قرار دیا۔ امام نووی نے کہا: اِن اور اس موضوع سے متعلقہ دیگر احادیث میں واضح دلالت موجود ہے کہ خلافت قریش کے ساتھ مختص ہے، کسی دوسرے کو یہ منصب دینا ناجائز ہے، صحابہ کے عہد اور ان کے بعد والے زمانے میں اسی بات پر اجماع منعقد ہوا۔ اگر اہل بدعت نے مخالفت کی ہے تو ان کا ردّ کرنے کے لیے صحابہ کا اتفاق ہی کافی ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ وضاحت کر دی ہے کہ آخر زمانہ تک خلافت کا یہی حکم جاری رہے گا اور ابھی تک ایسے ہی ہوا۔ لیکن ملا علی قاری نے کہا: اشکال یہ ہے کہ اکثر علاقوں میں دو سو (۲۰۰) برسوں تک غیر قریشی حکمران رہے۔ تین جوابات دیے جا سکتے ہیں: احادیث میں مذکورہ خبر کو امر کے معنی میں لیا جائے یا پھر خبر کو درج ذیل حدیث کے ساتھ مقید کیا جائے: سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ (خلافت والا) معاملہ قریش میں رہے گا، جب تک یہ دین (کے احکام) کو قائم رکھیں گے، مخالفت کرنے والے کو اللہ تعالیٰ ذلیل کر دے گا۔ (بخاری) جب قریشی خلفاء نے دین کی حرمتوں کو پامال کیا تو وہ خلافت سے محروم ہو گئے۔ اس لیے احادیث میں مذکورہ خبر کو امر کے معنی میں لیا جائے گا، یا پھر ناس سے مراد عرب لوگ ہیں۔ (مرقاۃ المفاتیح: ۱۰/ ۳۳۴) سیدنا ابوہریرہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: ((اَلنَّاسُ تَبَعٌ لِقُرَیْشٍ فِيْ ھٰذَا الشَّاْنِ، مُسْلِمُھُمْ تَبَعٌ لِمُسْلِمِھِمْ، وَکَافِرُھُمْ تَبَعٌ لِکَافِرِھِمْ۔)) … لوگ اس (خلافت کے) معاملے میں قریشیوں کے تابع ہیں، مسلمان لوگ قریشی مسلمانوں کے تابع ہوں گے اور کافر لوگ قریشی کافروں کے تابع ہوں گے۔ (صحیح بخاری: ۶/ ۴۱۳، صحیح مسلم: ۶/ ۲) قریش ہمیشہ متبوع اور دوسرے ان کے تابع رہے، جب یہ کافر تھے تو لوگ کفر میں ان کے پیروکار تھے، جیسا کہ عام عرب لوگوں کا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بارے میں خیال تھا کہ دیکھتے ہیں کہ ان کی قوم قریش کیا کرتی ہے، جب وہ فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئے تو عرب قبائل نے ان کی پیروی کرتے ہوئے جماعتوں کی شکل میں اسلام قبول کرنا شروع کر دیا۔