Blog
Books
Search Hadith

اذان کی ابتدا کا بیان اور عبد اللہ بن زید کا خواب اور فجر میں’ ’اَلصَّلَاۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ کی مشروعیت

۔ (۱۲۶۷)(وَعَنْہُ مِنْ طَرِیقٍ ثَانٍ بِنَحْوِہِ) وَزَادَ ثُمَّ أَمَرَ بِالتَّأْ ذِیِن فَکَانَ بِلَالٌ مَوْلیٰ أَبیِ بَکْرٍ یُؤَذِّنُ بِذَالِکَ وَیَدْعُوْ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلَی الصَّلَاۃِ قَالَ، فَجَائَ ہُ فَدَعَاہُ ذَاتَ غَدَاۃٍ إِلَی الفَجْرِ، فَقِیلَ لَہُ إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نَائِمٌ، قَالَ فَصَرَخَ بِلَالٌ بِأَعْلٰی صَوْتِہِ: اَلصَّلَاۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ ، قَالَ سَعِیدُ بِنْ اَلْمَسَیِّبِ فَأُ دْ خِلَتْ ھَذِہِ الْکَلِمَۃُ فِی التَّأْذِینِ إِلٰی صَلَاۃِ الفَجْرِ (مسند احمد: ۱۶۵۹۱)

سیّدنا عبد اللہ بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے ہی دوسری سند کے ساتھ اسی طرح کی حدیث مروی ہے اور اس میں مزید اس چیز کا ذکر ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اذان کہنے کا حکم دے دیا۔ سیّدنا ابوبکر صدیق ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے آزاد کردہ غلام سیّدنا بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ انہی کلمات کے ساتھ اذان کہا کرتے تھے اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو نماز کے لیے بلایا کرتے تھے۔ سیّدناعبد اللہ بن زید کہتے ہیں: بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ایک دن صبح کے وقت فجر کی نماز کے لیے آپ کو بلانے گئے تو انہیں بتایا گیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سوئے ہوئے ہیں تو بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بآوازِ بلند کہا: الصلاۃ خیر من النوم (نماز نیند سے بہتر ہے)۔ سعید بن مسیّبکہتے ہیں: تو یہ کلمات فجر کی اذان میں داخل کر دیے گئے۔
Haidth Number: 1267
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۲۶۷) تخر یـج: …حدیث حسن دون قولہ: ویدعو رسول اللّٰہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الی الصلاۃ، قال: فجائہ فدعاہ … الی آخر الخبر۔ فھی زیادۃ منکرۃ انفرد بھا ابن اسحاق فی ھذہ الروایۃ، وھو مدلس، ولم یسمع ھذا الحدیث من الزھری۔ أخرجہ البھیقی: ۱/ ۴۱۵، وابن خزیمۃ: ۳۷۳ (انظر: ۱۶۴۷۷)

Wazahat

فوائد:… یہ خواب سیّدنا عبد اللہ بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیّدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی فطری سعادت ہے، یہ سچے خواب ہیں، ایسے خوابوں کو مختلف احادیث میں نبوت کا پچیسواں، چھیالیسواں اور سترہواں حصہ قرار دیا گیا ہے۔ ان الفاظ میں کوئی تضاد نہیں ہے، اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس اختلاف کا تعلق خواب دیکھنے والے سے ہے، جو جتنا نیک ہو گا، اتنا ہی اس کا خواب سچا ہو گا۔ ابو داود کی روایت کے الفاظ یہ ہیں: ((قال: لَمَّا أَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِالنَّاقُوْسِ لِیُضْرَبَ بِہٖلِلنَّاسِفِی الْجَمْعِ للِصَّلَاۃِ طَافَ بِیْ وَأَنَا نَائِمٌ۔)) یعنی: سیّدنا عبد اللہ بن زید کہتے ہیں: جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حکم دیا کہ ناقوس بنایا جائے، تاکہ لوگوں کو نماز کے لیے جمع کیا جا سکے تو میں نے خواب میں دیکھا کہ … اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ابھی تک ناقوس بنانے کا حکم دیا تھا، ابھی اسے بجایا نہیں گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اذان کی مشروعیت کے اسباب پیدا کر دیئے تھے۔ قابل تعجب بات ہے کہ سیّدنا عبد اللہ بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو سچے خواب کا شرف حاصل ہوا اور اذان دینے کے لیے سیّدنا بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا انتخاب کیا گیا۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خود وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا: ((إِنَّہَا لَرُؤْیَا حَقٌّ إِنْ شَائَ اللّٰہُ، فَقُمْ مَعَ بِلَالِ فَأَلْقِ عَلَیْہِ مَارَأَیْتَ فَلْیُؤَذِّنْ بِہِ فَإِنَّہُ أَنْدٰی صَوْتاً مِنْکَ۔)) یعنی: ان شاء اللہ یہ سچا خواب ہے،تم بلال کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ اور اس خواب (کے کلمات) اس پر ڈالو، تاکہ وہ اذان دے، کیونکہ وہ تیری بہ نسبت زیادہ بلند آواز والا ہے، … …۔ (ابو داود، ابن ماجہ) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مؤذن خوبصورت اور بلند آواز والا ہونا چاہیے، صحیح ابن خزیمہ کی ایک روایت میں ہے کہ سیّدنا ابو محذورہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی آواز آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بہت پسند آئی، اس لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو اذان کی تعلیم دی۔ لیکن اس وقت اکثر مساجد میں اس چیز کا بالکل خیال نہیں رکھا جاتا۔ اذان فجر میں اَلصَّلَاۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ کی ابتدا نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے عہدِ مبارک میں ہی ہوئی، اس کی تفصیل آگے آئے گی۔