Blog
Books
Search Hadith

فصل پنجم: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی قبر اور منبر کے مابین جگہ کی فضیلت اور منبر والی جگہ کی فضیلت کا بیان

۔ (۱۲۶۹۴)۔ عَنْ اُمِّ سَلَمَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((قَوَائِمُ مِنْبَرِیْ رَوَاتِبُ فِی الْجَنَّۃِ۔)) (مسند احمد: ۲۷۰۰۹)

سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے منبر کے پائے جنت میں گڑھے ہوئے ہیں۔
Haidth Number: 12694
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۲۶۹۴) تخریج: اسنادہ صحیح، اخرجہ النسائی: ۲/ ۳۵ (انظر: ۲۶۴۷۶)

Wazahat

فوائد:… مذکورہ بالا تمام روایات کو سمجھنے کے لیے درج ذیل بحث پر غور کریں: فضیلۃ الشیخ محمد عطاء اللہ بھوجیانی ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ نے کہا: ممکن ہے کہ زمین کے جس حصے میں منبر پڑا تھا، وہ جنت سے منتقل کی گئی ہو، یا پھر اس منبر کو جنت میں منتقل کر دیا جائے گا۔ (التعلیقات السلفیۃ: ۱/۸۰) درج ذیل حدیث پر غور کریں: سیدنا عبد اللہ بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((مَا بَیْنَ بَیْتِیْ وَ مِنْبَرِیْ رَوْضَۃٌ مِّنْ رِیَاضِ الْجَنَّۃِ، وَمِنْبَرِیْ عَلٰی حَوْضِیْ۔)) (بخاری: ۱۸۸۸)… میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان والا (زمین کا قطعہ) جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ ہے اور میرا منبر میرے حوض پر ہے۔ حافظ ابن حجر ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ نے کہا: علمائے کرام کے اقوال کا خلاصہ اور اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ۱۔ زمین کا یہ حصہ نزولِ رحمت اور حصولِ سعادت کے اعتبار سے جنت کے باغیچے کی طرح ہے، بالخصوص آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے زمانے میں۔ ۲۔ اس حصے میں کی جانے والی عبادت جنت کا سبب بنتی ہے۔ ۳۔ اس حدیث کا ظاہری مفہوم ہی مراد ہے کہ یہ قطعہ جنت کا حقیقی باغیچہ ہے اور اسے آخرت میں جنت میں منتقل کر دیا جائے گا۔ رہا مسئلہ اور میرا منبر میرے حوض پر ہے۔ کا تو اس سے مراد یہ ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا منبر حوض پر نصب کیا جائے گا، اکثر علماء و فقہاء کی یہ رائے ہے کہ اس سے مراد وہی منبر ہے، جس پر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کھڑے ہو کریہ ارشاد فرما رہے تھے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد وہ منبر ہے، جو قیامت کے دن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے رکھا جائے گا، لیکن پہلا معنی زیادہ مناسب ہے۔ (فتح الباری: ۴/۱۲۵) سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((بُطْحَانُ عَلٰی تُرْعَۃٍ مِنْ تُرَعِ الْجَنَّۃِ۔)) … وادیٔ بطحان جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچے پر ہے۔ (صحیحہ: ۷۶۹، دیلمی: ۲/ ۱/ ۱۶) مذکورہ بالا احادیث کی توضیح سے اس حدیث کو سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔ زیادہ مناسب یہ ہے کہ اس باب میں مندرج روایات سمیت اس قسم کے مبہم مفہوم پر مشتمل تمام احادیث کو ظاہری معنی پر محمول کیا جائے، جیسا کہ صحابہ کرام نے یہ فرمودات ِ نبوی سننے پر ہی اکتفا کیا، اور ان مقامات کی فضیلت کا بھی یہی تقاضا ہے کہ جو مفہوم بادی النظر میں سمجھ آتا ہے، اسے تسلیم کر لیا جائے۔ بہرحال سلف صالحین کے چند اقوال نقل کر دیے گئے ہیں، تاکہ قارئین کی تشنگی ختم ہو سکے۔