Blog
Books
Search Hadith

اذان اور اقامت کا طریقہ اور دونوں کے کلمات کی تعداد اور ابومحذورہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے واقعہ کا بیان

۔ (۱۲۷۸)(وَمِنْ طَرِیقٍ ثَانٍ) حَدَّثَنَا عَبْدُاللّٰہِ حَدَّثَنِیْ أبِیْ ثَنَا إِسْمَاعِیلُ أنَا خَالِدٌ عَنْ أَبِیْ قِلَابَۃَ قَالَ أَنَسٌ: أُمِرَ بِلَالٌ أَنْ یَّشْفَعَ الْأَذَانَ وَیُوِتِرَ الإِْ قَامَۃَ۔ فَحَدَّثْتُ بِہِ أَیُّوْبَ فَقَالَ: إِلاَّ الإِْقَامَۃَ۔

سیّدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: سیّدنا بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو اذان کے دو دو کلمے کہنے کا او راقامت کا ایک ایک کلمہ کہنے کا حکم کیا گیا تھا۔ (دوسری سند)سیّدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: سیّدنا بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو اذان کے دو دو کلمے کہنے کا اور اقامت کا ایک ایک کلمہ کہنے کا حکم دیا گیاتھا، قَدْقَامَتِ الصَّلَاۃُ کے الفاظ کے علاوہ۔
Haidth Number: 1278
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۲۷۸) تخر یـج: …انظر الحدیث بالطریق الأول

Wazahat

فوائد:… درج بالا روایات پر غور کریں، اذان و اقامت کی دو دو صورتیں بیان کی گئی ہیں: (۱) ترجیع والی اذان اور اس کے ساتھ اقامت کے دو دو کلمات: ترجیع والی اذان کہنا بھی سنت ہے، جس میں اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ اور اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ چار چار دفعہ کہا جاتا ہے۔ (مسلم) جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیّدنا ابو محذورہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو ترجیع والی اذان سکھائی تو اس کے ساتھ اقامت کے دو دو کلمات کی تعلیم دی۔ (ابوداود، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ) مذکورہ بالا روایات میں سے ایک روایت میں ہے: سیّدنا ابو محذورہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! عَلِّمْنِیْ سُنَّۃَ الْاَذَانِ۔ یعنی: اے اللہ کے رسول! مجھے مسنون اذان کی تعلیم دو۔ جواباً آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ترجیع والی اذان کی تعلیم دی۔ (ابو داود) اور ایک روایت میں ہے: سیّدنا ابو محذرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کو اذان کے انیس اور اقامت کے سترہ کلمات سکھائے۔ (ابوداود، ابن ماجہ، نسائی) اور کلمات کییہ تعداد ترجیع والی اذان میںہوتی ہے۔ یاد رہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیّدنا ابو محذورہ کی درخواست پر ان کو مکہ مکرمہ کا مؤذن مقرر کیا تھا اور وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وفات کے بعد بھی۵۹ ھ تک حرم مکی میں مؤذن مقرر رہے اور یہی اذان دیتے رہے، (ملاحظہ ہو: اسد الغابۃ: ۶/ ۲۷۳) ان کے بعد ان کی اولاد بھی اسی منصب پر فائز رہی اور یہی اذان کہتی رہی۔ یہ بات بھی ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ سیّدنا ابو محذورہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی اذان کا واقعہ غزوۂ حنین کے بعد ۸ ھ میں اور سیّدنا عبد اللہ بن زید کی خواب کا واقعہ پہلی سن ہجری میں پیش آیا، اس لیے ترجیع والی اذان کے حکم کو باقی سمجھا جائے اور اسے منسوخ نہ قرار دیا جائے۔ امام شافعی، امام احمد، امام مالک اور جمہور کے نزدیکیہ اذان مستحب ہے۔ احناف ترجیع والی اذان کے قائل نہیں ہیں، ان کا خیال ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیّدنا ابو محذورہ کو تعلیم دینے کی خاطر شہادتین کا دوبارہ تذکرہ کیا تھا، نہ کہ اذان کے کلمات کی حیثیت سے اور وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ سیّدنا عبد اللہ بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خواب والی اذان میں شہادتین کییہ زیادتی نہیں ہے۔ لیکن درج بالا دلائل و حقائق سے احناف کے اس خیال کا ردّ ہو رہا ہے۔ احناف کو اپنے قوانین کا لحاظ کرتے ہوئے یہ بات بھی ذہن نشین کر لینی چاہیے تھی کہ راویٔ حدیث نے خود بھی ترجیع والی اذان کو سنت سمجھا اور تقریباً پچاس سال تک یہی اذان دیتے رہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں تمام سنتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ احناف کا ایک قانون یہ ہے: العبرۃ بما رأی لا بما روی (راوی کے اپنے خیال اور فتوے پر اعتبار کیا جائے گا، نہ کہ اس کی روایت پر)۔ اور اس مسئلہ میں تو روایت اور رائے دونوں کا ایک مفہوم ہے۔ (۲) دوہری اذان او راکیری اقامت: بعض دلائل اوپر گزر چکے ہیں، ایک حدیث میں واضح طور پر سیّدنا بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو اکیری اقامت کہنے کا حکم دیا گیا ہے، مزید دلیلیںیہ ہیں: سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((اِشْفَعِ الْأَذَانَ، وَأَوْتِرِ الإِقَامَۃَ۔)) یعنی: اذان دوہری اور اقامت اکیری کہا کر۔ (الدارقطني في الأفراد رقم ۵۰ ج ۲، الصحیحۃ: ۱۲۷۶) سیّدنا عبد اللہ بن زید بن عبد ربہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو کسی آدمی نے خواب میں دوہری اذان اور اکیری اقامت کی تعلیم دی، جب انھوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ خواب بیان کیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((اِنَّھَا لَرُؤْیَا حَقٌّ اِنْ شَائَ اللّٰہُ۔)) یعنی: بے شک ان شاء اللہ یہ خواب حق ہے۔ یہی خواب سیّدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے دیکھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کی بھی تصدیق کی۔ ( ابوداود: ۴۹۹، ابن ماجہ: ۷۰۶) سیّدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے زمانے میں اذان کے دو دو کلمات اور اقامت کا ایک ایک کلمہ ہوتا تھا، لیکن قَدْ قَامَتِ الصَّلَاۃُ کے الفاظ دو دفعہ کہے جاتے تھے۔ (ابوداود، نسائی) اقامت میں قَدْ قَامَتِ الصَّلَاۃُ والے الفاظ دو دفعہ کہے جائیں گے، جیسا کہ مختلف روایات سے معلوم ہوتا ہے۔ خطابی نے کہا: حرمین، حجاز، شام، یمن، مصر، مغرب اور دیگر بعید اسلامی ممالک میں اقامت کے الفاظ ایک ایک مرتبہ کہنے پر عمل ہے۔ سیّدنا عمر، سیّدنا عبد اللہ بن عمر، سیّدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما اور امام حسن بصری، امام زہری، عمر بن عبد العزیز، امام احمد وغیرہ کا بھییہی مذہب ہے۔ معلوم نہیں کہ ان حقائق کے باوجود لوگ اکیری اقامت کہنے سے کیوں کتراتے ہیں؟ تنبیہ:… اشھد انّ امیرا لمؤمنین علی ولی اللّٰہ کے الفاظ شیعہ لوگوں کی طرف سے اذان میں زیادہ کیے گئے ہیں،یہ الفاظ کسی صحیح، بلکہ ضعیف حدیث سے بھی ثابت نہیں ہیں۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ فقہ جعفریہ میں بھی اذان میں ان کلمات کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ اسی طرح اذان کی ابتدا میں الصلوۃ والسلام… کے الفاظ سنت سے ثابت نہیں، عہد نبوی کے مؤذن سیّدنا بلال، سیّدنا ابن ام مکتوم اور سیّدنا ابومحذورہ وغیرہیہ الفاظ نہیں کہتے تھے۔ البتہ اذان کے بعد مسنون درود اور مخصوص دعائیں پڑھنا باعث ِ فضیلت ہے۔