Blog
Books
Search Hadith

باب دوم: شام اور اہل شام اور وہاں کے بعض علاقوں کے فضائل اس میں کئی فصلیں ہیں فصل اول: مطلق طور پر شام کے فضائل کا بیان

۔ (۱۲۷۲۸)۔ وَعَنْ خُرَیْمِ بْنِ فَاتِکٍ الْأَسَدِیَّ،یَقُولُ: أَہْلُ الشَّامِ سَوْطُ اللّٰہِ فِی الْأَرْضِ یَنْتَقِمُ بِہِمْ مِمَّنْ یَشَائُ کَیْفَیَشَائُ؟ وَحَرَامٌ عَلٰی مُنَافِقِیہِمْ أَنْ یَظْہَرُوْا عَلٰی مُؤْمِنِیہِمْ، وَلَنْ یَمُوتُوْا إِلَّا ہَمًّا أَوْ غَیْظًا أَوْ حُزْنًا۔ (مسند احمد: ۱۶۱۶۲)

سیدنا خریم بن فاتک اسدی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اہل شام زمین پر اللہ کی لاٹھی ہیں، اللہ ان کے ذریعے جس سے جس طرح چاہے گا، انتقام لے گا، اہل شام کے منافقین وہاں کے مومنین پر غالب نہ آسکیں گے اور وہ کسی نہ کسی پریشانی غصے یا غم سے ہلاک ہوجائیں گے۔
Haidth Number: 12728
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Doubtful

ضعیف

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۲۷۲۸) تخریج: اثر ضعیف، ایوب بن میسرۃ بن حلبس، لم یرو عنہ غیر اثنین، و قال ابن حجر: رایت لہ ما ینکر، اخرجہ الطبرانی فی الکبیر : ۴۱۶۳(انظر: ۱۶۰۶۵)

Wazahat

فوائد:… عمیر بن اسود اور کثیر بن مرہ حضرمی کہتے ہیں کہ سیدناابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور ابن سمط کہتے تھے: لَایَزَالُ الْمُسْلِمُوْنَ فِیْ الْأَرْضِ حَتّٰی تَقُوْمَ السَّاعَۃُ، وَذٰلِکَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ: ((لَاتَزَالُ مِنْ أُمَّتِیْ عِصَابَۃٌ قَوَّامَۃٌ عَلٰی أَمْرِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ لَایَضُرُّھَا مَنْ خَالَفَھَا، تُقَاتِلُ أَعْدَائَ ھَا، کُلَّمَا ذَھَبَ حَرْبٌ نَشَبَ حَرْبُ قَوْمٍ آخَرِیْنَ، یَزِیْغُ اللّٰہُ قُلُوْبَ قَوْمٍ لِیَرْزُقَھُمْ مِنْہُ، حَتّٰی تَأْتِیَھُمُ السَّاعَۃُ، کَأَنَّھَا قِطَعُ اللَّیْلِ الْمُظْلِمِ، فَیَفْزَعُوْنَ لِذٰلِکَ حَتّٰی یَلْبَسُوْا لَہٗ أَبْدَانَ الدُّرُوْعِ۔)) وَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((ھُمْ أَھْلُ الشَّامِ۔)) وَنَکَتَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِإِصْبَعِہٖ، یُوْمِیُٔ إِلَی الشَّامِ حَتّٰی أَوْجَعَھَا۔ … مسلمان زمین میں قیامت کے برپا ہونے تک موجود رہیں گے، کیونکہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میری امت کی ایک جماعت اللہ کے حکم پر قائم دائم رہے گی، اس کا مخالف اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا، وہ اپنے دشمنوں سے جہاد کرتی رہے گی، جب کبھی ایک لڑائی ختم ہو گی تو دوسری جنگ چھڑ جائے گی، اللہ تعالیٰ لوگوں کے دلوں کو راہِ راست سے ہٹاتا رہے گا تاکہ ان سے (مالِ غنیمت کے ذریعے) ان کو رزق دیتا رہے، حتی کہ قیامت آ جائے گی، گویا کہ وہ اندھیری رات کے ٹکڑے ہوں گے، اس وجہ سے وہ گھبرا جائیں گے، حتی کہ وہ چھوٹی چھوٹی زرہیں پہنیں گے اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ اہل شام ہیں۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے شام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنی انگلی کے ساتھ زمین کو کریدا (یعنی شام کی طرف خط کھینچا)، حتی کہ آپ کو تکلیف بھی ہوئی۔ (تاریخ ابن عساکر: ۱/ ۵۲۸، صحیحہ: ۳۴۲۵) امام البانی ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ نے اس حدیث پر بُشْرٰی لِاَھْلِ الشَّامِ الْمُؤْمِنِیْنَ کی سرخی ثبت کی۔ جغرافیائی حدود تبدیل ہونے کی وجہ سے موجودہ شام اور احادیث میں مذکورہ شام کی حدود میں بہت زیادہ فرق ہے، قدیم شام کئی ممالک میں تقسیم ہو چکا ہے، معجم البلدان کے بیان کے مطابق جزیرہ نماعرب کا شمالی علاقہ شام کہلاتا تھا، یہ علاقہ انطاکیہ ، موجودہ شام، اردن پر اور فلسطین سے عسقلان پر مشتمل تھا۔ مختلف احادیث ِ صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حجاز، شام اور یمن اسلام و ایمان کے مراکز ہیں اور یہاں سے اسلام اور ایمان کاعلم بلند ہوتا رہے گا اور مدینہ سے مشرق کی جانب واقع عراق کا علاقہ فتنوں کا سرچشمہ اور ضلالت و گمراہی کا مرکز ہے، یہاں سے بہت سے فتنوں نے جنم لیا، یہاں خیر کم اور شر زیادہ ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یمن و شام کے لیے خصوصی برکت کی دعا فرمائی۔ اس لیے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا پیدائشی اور آبائی علاقہ مکہ مکرمہ یمن کا اور مدینہ منورہ شام کا شہر تھا، جیسا کہ علامہ شرف الدین طیبی نے مشکوۃ المصابیح کی شرح میں کہا ہے۔ ان احادیث میں شام میں بسیرا کرنے والے ان لوگوں کے لیے بشارت ہے، جو سنت کی تائید کرنے والے، اس پر عمل کرنے والے، اس کا دفاع کرنے والے اور اس کی طرف دعوت دینے میں صبر کرنے والے ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ ہمیں بھی ان میں سے بنا دے اور ان کے زمرے میں ہمارا حشر کرے، جبکہ ہم نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے جھنڈے کے سائے میں ہوں۔ احادیث ِ مبارکہ میں سرزمینِ شام اور اہل شام کو سراہا گیا، ماضی میں یہ علاقہ اہل علم اور اہل تقوی لوگوں کی آماجگاہ بنا رہا، مستقبل میں بھی اس علاقے میں خیر و بھلائی زیادہ ہو گی۔ سیدنا ابن حوالہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: انجام یہ ہو گا کہ تم مختلف لشکروں میں بٹ جاؤ گے، ایک لشکر شام میں، ایک یمن میں اور ایک عراق میں ہو گا۔ ابن حوالہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! اگر میں یہ زمانہ پا لوںتو آپ میرے لیے کون سا علاقہ مختار (وپسندیدہ) سمجھیں گے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: شام کو لازم پکڑنا، یہ اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ زمین ہے، اللہ تعالیٰ اپنے مختار بندوں کو اس کی طرف لائے گا، اگر تم ایسا کرنے سے انکار کرو تو پھر یمن کو لازم پکڑنا اور اپنے حوض سے پینا، بیشک اللہ تعالیٰ نے مجھے شام اور اہل شام کی ضمانت دی ہے، (یعنی وہ فتنوں سے محفوظ رہیں گے)۔ (ابوداود: ۲۴۸۳)