Blog
Books
Search Hadith

اذان پر اجرت لینے کی ممانعت کا بیان

۔ (۱۲۸۱) عَنْ عُثْمَانَ بِنِ أَبِی الْعَاصِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! اِجْعَلْنِی إِمَامَ قَوْمِیْ۔ فَقَالَ: ((أَنْتَ إِمَامُہُمْ، وَاقْتَدِ بِأَضْعَفِہِمْ، وَاتَّخِذْ مُؤََذِّنًا لا یَأَخُذُ عَلٰی أَذَانِہِ أَجْرًا۔)) (مسند احمد: ۱۶۳۸۰)

سیّدنا عثمان بن ابی العاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے میری قوم کا امام بنا دیجئے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: (ٹھیک ہے)، تو اُن کا امام ہے، ان میں سے زیادہ کمزور کا خیال رکھنا او رایسا مؤذن مقرر کرنا جو اپنی اذان پر اجرت نہ لیتا ہو۔
Haidth Number: 1281
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۲۸۱) تخر یـج: …اسنادہ صحیح۔ أخرجہ الحاکم: ۱/۱۹۹، والبھیقی: ۱/ ۴۲۹، وابن خزیمۃ: ۴۲۳، وأخرجہ مسلم: ۴۶۸، ۱۸۷، وابن ماجہ: ۹۸۸ بلفظ: ((اذا اممت قوما، فاخف بھم الصلاۃ۔)) (انظر: ۱۶۲۷۰ الی۱۶۲۷۷)

Wazahat

فوائد:… امامت انتہائی پاکیزہ اور افضل منصب ہے اور بہت بڑی ذمہ داری بھی ہے، اس کا مزید اندازہ اس حقیقت سے لگا لینا چاہیے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خود اس قسم کی ذمہ داریاں مختلف لوگوں کو سونپتے تھے اور بوجوہ مختلف لوگوں کو امامت سے معزول بھی کر دیتے تھے۔ بہرحال جو شخص شریعت کی روشنی میں اپنے آپ کواس کا اہل سمجھتا ہو، تو اس کے لیے امامت کا مطالبہ کر لینے میں کوئی حرج نہیں۔ اس حدیث کے آخری جملے سے معلوم ہوتا ہے کہ اذان جیسے منصب کو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی خاطر ادا کیا جائے اور اس کے عوض کچھ نہ لیا جائے، یہی افضل و اعلی ہے۔ یہ بات ضرور ہے کہ اس حدیث سے اجرت لینے کی حرمت ثابت نہیں ہوتی۔ اگر مقصود اجر و ثواب کا حصول ہو تو اجرت لینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، جیسا کہ تعلیم قرآن پر اجرت لینے کا مسئلہ ہے۔ چونکہ عبادت کے لحاظ سے اذان اور تعلیم قرآن دونوں ایک ہی چیز ہیں، اس لیے ہم قارئین کے استفادہ کے لیے مؤخر الذکر کی اجرت کے جواز پر دلالت کرنے والی دو دلیلیں ذکر کر دیتے ہیں: (۱)سیّدنا عبدا للہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک صحابی نے ایک بستی کے سردار کوسورۂ فاتحہ پڑھ کر دم کیا اور اس کے عوض بکریوں کا ایک ریوڑ لیا۔ دوسرے صحابہ کرام نے ناپسند کیا اور اسے ڈانٹتے ہوئے کہا: ((اَخَذْتَ عَلٰی کِتَابِ اللّٰہِ اَجْرًا۔)) یعنی: تو نے اللہ تعالیٰ کی کتاب پراجرت لی۔ جب وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس پہنچے تو انھوں نے اس کی شکایت کی۔ جواباً رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((اِنَّ اَحَقَّ مَا اَخَذْتُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا کِتَابُ اللّٰہِ۔)) (بخاری) یعنی: سب سے زیادہ جس چیز پر تم اجرت لینے کاحق رکھتے ہو وہ اللہ کی کتاب ہے۔ (صحیح بخاری: ۲۲۷۶) حافظ ابن حجرنے کہا: ((واستدل منہ للجمھور فی جواز الاجرۃ علی تعلیم القرآن۔)) (فتح الباری) یعنی: اس حدیث سے جمہور کے لیے استدلال کیا گیا ہے جو تعلم القرآن پر اجرت کے جواز کے قائل ہیں۔ (۲)بیوی کا حق مہر خاوند پر فرض ہے ، اس کی تفصیلیوں ہے کہ سیّدنا سہل بن سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک شخص کا نکاح قرآن مجید کی تعلیم کو حق مہر ٹھہرا کر کر دیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے الفاظ یہ تھے: ((اِذْھَبْ فَقَدْ اَنْکَحْتُھَا بِمَا مَعَکَ مِنَ الْقُرْآنِ۔)) (بخاری، مسلم) یعنی: جا، میں نے اس قرآن کے بدلے جو تیرے پاس ہے تیرا اس عورت کے ساتھ نکاح کر دیا ہے۔ معلوم ہوا کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خود قرآن مجید کی تعلیم کی اجرت دلوائی ہے۔ امام مالک نے کہا: یہ تعلیمِ قرآن پر اجرت ہی تھی، اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کی تعلیم پر اجرت لینا جائز ہے۔ (فتح الباری) بہرحال تعلیم قرآن کا مقصود اجر و ثواب کا حصول قرآن مجید کی اشاعت ہونا چاہیے۔ واللہ اعلم بالصواب۔