Blog
Books
Search Hadith

۔ (۱۲۷۷۸)۔ (وَعَنْہُ اَیْضًا) اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دَخَلَ نَخْلًا لِاُمِّ مُبَشِّرٍ امْرَاَۃٍ مِنَ الْاَنْصَارِ، فَقَالَ: ((مَنْ غَرَسَ ہٰذَا الْغَرَسَ مُسْلِمٌ اَمْ کَافِرٌ؟)) قَالُوْا: مُسْلِمٌ، قَالَ: ((لَا یَغْرُسُ مُسْلِمٌ غَرْسًا فَیَاْکُلُ مِنْہُ اِنْسَانٌ اَوْ دَابَّۃٌ اَوْ طَائِرٌ اِلَّا کَانَ لَہُ صَدَقَۃً۔)) (مسند احمد: ۱۳۰۳۰)

سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک انصاری خاتون سیدہ ام مبشر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے نخلستان میں تشریف لے گئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دریافت فرمایا: یہ کھجوریں کس نے لگائی ہیں، مسلمان نے یا کافر نے؟ لوگوںنے بتلایا کہ ایک مسلمان نے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کوئی مسلمان کوئی چیز کا شت کرے اور اس میں سے کوئی انسان، جانوریا پرندہ کچھ کھائے تو وہ اس کاشت کرنے والے کے حق میں صدقہ کی مانند ہوتا ہے یعنی اسے اس کا ثواب ملتا ہے۔
Haidth Number: 12777
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۱۲۷۷۸) تخریج: اخرجہ البخاری تعلیقا: ۲۳۲۰، ومسلم: ۱۵۵۳ (انظر: ۱۲۹۹۹)

Wazahat

فوائد:… امام البانی ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ لکھتے ہیں: ان احادیث ِ کریمہ میں سرمایہ کاری کرنے کی ترغیب دلائی گئی ہے، بالخصوص پہلی حدیث میں، کہ اگر زندگی کے آخری لمحے میں کوئی پودا لگانے کا موقع مل جائے تو محروم نہیں رہنا چاہیے، تاکہ پچھلے لوگ اس سے استفادہ کرتے رہیں اور جب تک اس پودے کے اثرات باقی رہیں، اسے اجر ملتا رہے۔ امام بخاری نے الادب المفرد میں اس حدیث پر یہ باب قائم کیا ہے: [بَابُ اِصْطِنَاعِ الْمَالِ ]پھر انھوں نے لقیط کا یہ قول نقل کیا ہے کہ: ہمارے ہاںجب کوئی گھوڑی بچہ جنم دیتی تو اس کا مالک اس کو ذبح کر دیتا اور کہتا: میں نے کوئی زندہ رہنا ہے کہ اس پر سوار ہوں گا؟ اتنے میں ہمیں سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا خط موصول ہوا، اس میں لکھا تھا: اللہ تعالیٰ نے تم کو جو رزق دیا ہے، اس کی اصلاح کرو، کیونکہ لمبی زندگی گزارنی ہے۔ سیدنا عبد اللہ بن سلام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے داؤد بن ا بو داود انصاری سے کہا: جب تجھے دجّال کے ظاہر ہونے کی خبر ملے اور تو وادی میں پودے لگا رہا ہو تو ان کی اصلاح کرنے میں جلدی مت کرنا، کیونکہ دجال کے بعد بھی لوگوں نے زندہ رہنا ہے۔ حافظ ابن حجر نے داؤد بن ابو داؤدکو مقبول کہا ہے۔ ابن جریر نے عمارہ بن خزیمہ بن ثابت سے روایت کیا، وہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو اپنے باپ سے کہتے ہوئے سنا: تم اپنی زمین میں پودے کیوں نہیں لگاتے؟ میرے باپ نے کہا: میں بوڑھا آدمی ہوں، کل مر جاؤں گا۔ سیدنا عمر نے کہا: میں تجھے سختی کے ساتھ پودے وغیرہ لگانے کا حکم دیتا ہوں۔ پھر میں نے سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو دیکھا کہ وہ میرے باپ کے ساتھ پودے لگا رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض صحابہ نے زمین کی اصلاح کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کا مزدور کہا۔ امام بخاری نے (الأدب المفرد: ۴۴۸) میں نافع بن عاصم سے بیان کیا کہ سیدنا عبد اللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے وہْط سے نکلنے والے اپنے ایک بھتیجے سے کہا: کیا تیرے مزدور کام کرتے ہیں؟ اس نے کہا: پتہ نہیں۔ انھوں نے کہا: اگر تو ثقیف قبیلے کا ہوتا تو اپنے مزدوروںکے ساتھ کام کرتا، پھر وہ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور کہا: جو آدمی اپنے مزدوروں کے ساتھ مل کر اپنے گھر یا مال میں کام کرتا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کا عامل اور مزدور قرار پاتا ہے۔ طائف کے علاقے میں وَجّ مقام سے تین میلوں کے فاصلے پر ایک باغ کا نام وہْط تھا، جو سیدنا عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی طرف سے ان کی اولاد میں بطورِ وراثت منتقل ہوا تھا۔ ابن عساکر نے اپنی تاریخ (۱۳/ ۲۶۴/ ۲) میں عمرو بن دینار سے روایت کی ہے کہ سیدنا عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اپنے باغ وہط میں داخل ہوئے، جو طائف میں واقع تھا، اس میں دس لاکھ لکڑیاں پڑی تھیں، جو انھوں نے دس لاکھ درہموں کے عوض خریدی تھیں، ان کے ذریعے وہ انگوروں کی بیلوں کو کھڑا کرتے تھے۔ امام بخاری نے اس باب کی پہلی دو احادیث پر یہ باب قائم کیا ہے: [بَابُ فَضْلِ الزَّرْعِ اِذَا اُکِلَ مِنْہُ] (اس کھیتی کی فضیلت، جس سے کھایا جائے) ابن منیر نے کہا: امام بخاری نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ کھیتی لگانا مباح ہے۔ اس سے نہی والی احادیث کو ان صورتوں پر محمول کیا جائے گا، جن میں پڑنے کی وجہ سے لوگ جہاد جیسے شرعی مقاصد سے غافل ہو جاتے ہیں۔(صحیحہ: ۹) یادداشت